نماز جمعہ کے موقع پر سید علی خامنہ ای کا خطاب انتہائی اطمینان و اعلی اقتدار کی علامت ہے، سینیئر عرب تجزیہ نگار کا اعلان

عبدالباری عطوان

چیف ایڈیٹر؛  رأی اليوم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

محترم مرد و خواتین کو ایک نئے پروگرام میں خوش آمدید!

ایک ایسے سکون کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے جو کسی طوفان سے قبل پایا جاتا ہے

اور وہ جس کی اس وقت ہمیں توقع ہے، ایک بہت بڑا طوفان ہے!

ایک ایسا بیمثال طوفان کہ جو نہ صرف مشرق وسطی

بلکہ شاید پوری دنیا میں طاقت کے تمام توازن، میزان اور نقشے بدل کر رکھ دے گا

اس وقت حقیقت میں مسئلہ کیا ہے؟ ہم اس وقت ہر لمحے

اسرائیل کی جانب سے ایران کے ”دندان شکن” حملے کے جواب کے منتظر ہیں

ایک ایسا دندان شکن (ایرانی) جواب

کہ جس نے پورے مشرق وسطی میں سب سے بڑی اسرائیلی ایئر بیسز کو تباہ کر ڈالا ہے!

اس کے باوجود بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایران کا حملہ ”نمائشی” تھا۔۔

میرے بھائی! اسرائیل نے خود اعتراف کیا ہے!!

سنو میرے بھائی، سنو!

ہم کچھ اپنے اوپر بھی اعتماد کریں!!         کچھ اپنے دوستوں پر اعتماد کریں!

بہرحال، آج میں تین یا اس سے کچھ زیادہ موضوعات پر آپ کیساتھ گفتگو کروں گا

پہلا موضوع رھبر اعلی سید علی خامنہ ای کا خطاب ہے

سید علی خامنہ ای نے جمعے کا خطبہ

سید الشهدا المقاومہ سید حسن نصراللہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے دیا

ایران اور اسرائیل کو جواب دینے سے متعلق ایرانی صلاحیت کے بارے

تین نقاط نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ہے جس پر میں تفصیل سے بات کروں گا

ایران کا مغز حقیقی طور پر ٹھنڈا ہے،

یعنی (ممکنہ) اسرائیلی حملے کی بات ہو رہی ہے اور یہ اسرائیلی حملہ امریکہ و اسرائیل کا متفقہ فیصلہ ہے!

لیکن ایران مکمل طور پر اطمینان کے ساتھ کام کر رہا ہے!

دیکھیں ایرانی وزیرخارجہ لبنان کا دورہ کر رہے ہیں،

ایرانی صدر دوحہ جا کر ایک کانفرنس سے خطاب کر کے واپس لوٹ آتے ہیں!

یعنی، کمال ہے!

آپ اس حوالے سے، ان مسائل میں انتہائی زیادہ اطمینان کا مشاہدہ کر سکتے ہیں!

اس سے بھی بڑھ کر۔۔ سید علی خامنہ ای منبر پر جاتے ہیں

اور کھلی فضا میں جمعے کا خطبہ پڑھتے ہیں!!

یہ بزدل یا خوفزدہ یا مضطرب لوگوں کی اقدامات نہیں۔۔ بالکل نہیں!

بلکہ ایرانیوں میں غیر معمولی خود اعتمادی پائی جاتی ہے!

سید علی خامنہ ای جب منبر پر گئے اور انہوں نے خطاب کیا اور سیدحسن نصراللہ کی شہادت پر

اپنے غم و گہرے دکھ کا اظہار کیا اور تعزیت کہی تو اسوقت وہ طاقت اور انیشی ایٹو کے عروج پر تھے!

اور سب سے اہم یہ کہ انہوں نے ہم عربوں کے ساتھ

عربی میں اور فصیح گفتگو کی اور وہ اس میں مہارت رکھتے ہیں!

درحالیکہ،افسوس کیساتھ،ہمارے عرب رہنما ایسے ہیں جو حتی اسرائیل پر اعتراض تک نہیں کر سکتے!

ہمارے عرب حکمران اسرائیل سے ڈرتے ہیں اور صرف اور صرف اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں

وہ (عرب حکمران) اسرائیل کے خوف و رعب کے باعث اس کو دشمن تک نہیں کہہ سکتے

 کیونکہ وہ اس سے ڈرتے ہیں!

لیکن ابھی اس وقت بھی ایک ایسا (مسلم) ملک موجود ہے جو، حقیقتتا، دفاع کرتا ہے!

ایسا ملک جو (دشمن صیہونی رژیم کو پکار پکار کر) کہتا ہے کہ  ”ہم تیار ہیں”

ایک ایسا ملک کہ جو وہ کہتا ہے، کرتا ہے!

بعض لوک کہتے ہیں؛ اے بھائی، اے ابوالحسن! ایرانی جواب کہاں ہے؟

ایرانی جواب کا کیا بنا؟     ایران کا جواب کب آئے گا؟   وغیرہ۔۔

ایران کی جانب سے  200   میزائل داغے گئے ہیں!

جو 14 منٹ میں (اسرائیل) پہنچے ہیں

یہ میزائل ایران سے داغے گئے جو اسرائیل کی جغرافیائی گہرائی میں جا کر لگے

اور جنہوں نے اسرائیل کی؛ نہ صرف اہم ایئر بیسز اڑائیں بلکہ شناخت بھی تباہ کر کے رکھ دی!

کیونکہ اسرائیل کی بالادستی ”ہوائی میدان” میں ہے!

ایئربیسز پر حملہ ایک سنجیدہ اقدام اور واضح پیغام ہے

لڑاکا طیاروں کے بغیر اسرائیل کے پاس کیا طاقت ہے؟    کچھ بھی نہیں!!

یہ لڑاکا طیارے کہاں سے آتے ہیں؟ ؟  امریکہ سے۔۔

جو اس جارحیت میں  اسرائیل کیساتھ برابر کا شریک ہے۔۔!!

186 views

You may also like

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے