آپ غزہ میں کب تھے؟
اپریل کے آخر سے لے کر مئی کے پہلے دو ہفتوں تک
ڈاکٹر مارک پرلمٹر۔۔ کیرولینا سے آرتھوپیڈک سرجن اور انٹرنیشنل کالج آف سرجنز کے نائب صدر ہیں جو رضاکارانہ طور پر غزہ میں خدمات انجام دیتے رہے
تو وہ تمام سانحات جو آپ نے دیکھے ہیں، ان کے حوالے سے آپ غزہ کا موازنہ کیسے کرتے ہیں؟
جتنے سانحات بھی میں نے آج تک دیکھے ہیں، سب مل کر۔۔
سب مل کر۔۔ 40 مشن ٹرپ، 30 سالوں کے دوران۔۔
دھماکوں سے لے کر زلزلوں تک۔۔
یہ سب کچھ مل کر بھی عام شہریوں کے اس وسیع قتل عام
کی سطح تک نہیں پہنچتا جو میں نے غزہ میں صرف اپنے پہلے ایک ہفتے کے دوران دیکھا تھا
اور جب آپ کہتے ہیں ”عام شہری” تو کیا اس سے مراد زیادہ تر ”بچے” ہیں؟
جی، خصوصی طور پر ”بچے”!
میں نے ایسا پہلے کبھی نہ دیکھا تھا!
میں نے اس بڑی تعداد میں ”جلے کٹے” بچے دیکھے ہیں۔۔
کہ جتنے میں نے اپنی پوری زندگی میں نہ دیکھے تھے!
پہلے کبھی نہیں دیکھا۔۔
میں نے اپنے صرف پہلے ہفتے میں ہی
بے تحاشا ”تکڑے ٹکڑے بچوں” کو دیکھا ہے!
ٹکڑے ٹکڑے؟
جی! ٹکڑے ٹکڑے!!
آپ کا کیا مطلب ہے؟
ان کے اعضائے جسمانی علیحدہ ہو چکے تھے
وہ عمارتوں کے گرنے کے باعث کچلے جا چکے تھے۔۔ ان میں سے اکثر!
یا بم دھماکوں کا شکار بن کر چیتھڑوں میں بٹ چکے تھے۔۔
دوسری بڑی تعداد ان بچوں کی تھی کہ جن کے جسموں میں بموں کے ٹکڑے پیوست تھے
ایک 8 سالہ بچے کے جسم سے میں نے انگوٹھے جتنا بڑا بم کا ٹکڑا نکالا!
اس کے بعد اسنائپر کی گولیاں ہیں، میرے پاس ایسے بچے بھی لائے گئے
جنہیں دو مرتبہ اسنائپر کی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا!
رکئے! آپ کہہ رہے ہیں کہ
غزہ میں بچوں کو اسنائپروں کی جانب سے گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟
جی! بالکل!
میرے پاس دو بچے لائے گئے، کہ جن کی تصویریں بھی میرے پاس ہیں کہ
جن کو ایسے ماہرانہ انداز میں سینے میں گولی ماری گئی تھی کہ جس کے باعث میں ان کے سینے پر دل کے اوپر اپنی اسٹیتھواسکوپ تک نہ رکھ پایا تھا۔۔ اور عین کنپٹی پر!!
ہر ایک بچے کو!!
کوئی بچہ غلطی کے ساتھ، دنیا کے بہترین اسنائپروں کے ہاتھوں،
دو مرتبہ گولیوں کا نشانہ نہیں بنتا!!
اور وہ ”بالکل نشانے کے عین اوپر ماری گئی” گولیاں ہیں!
ایک امریکی ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ اس نے جو کچھ دیکھا تھا
اس پر یقین پیدا کرنے کے لئے حتی سی ٹی اسکین کی رپورٹس کا بھی بغور جائزہ لیا ہے!
درحقیقت، غزہ میں 20 سے زائد ڈاکٹروں نے بھی سنڈے مارننگ کو بچوں کو گولیاں مارے جانے کے بارے بتایا ہے!
کیونکہ اس کا لکھنا تھا کہ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ صرف ایک ہسپتال میں ہی سر میں گولیوں کے زخموں کے حامل بچوں کی اتنی بڑی تعداد کو لایا جا سکتا ہے!!
ان میں سے کچھ فائرنگ کے واقعات فلمائے بھی گئے ہیں
اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے اس بارے ویڈیو انٹرویو پر مبنی ہماری درخواست کو مسترد کر دیا
لیکن سی بی ایس نیوز کو ایک ای میل میں اسرائیلی فوج کے ترجمان کا لکھنا تھا:
اسرائیلی فوج نے کبھی بچوں کو عمدی طور پر نشانہ بنایا ہے اور نہ ہی کبھی بنائے گی!
اسرائیلی فوج نے لکھا کہ فعال جنگی میدان میں موجود رہنا خطرات کا باعث ہے
اور یہ کہ اسرائیلی فوج لڑائی والے علاقوں سے شہریوں کے انخلاء پر کاربند ہے اور اس کا مطالبہ کرتی ہے
اور یہ کہ اسرائیلی فوج لڑائی والے علاقوں سے شہریوں کے انخلاء پر کاربند ہے اور اس کا مطالبہ کرتی ہے
اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت غزہ کی 80 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے
اور اس کی اکثر عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں
ایک حقیقت کہ جس نے بچوں کی صحت سے اپنی قیمت چکائی ہے!
اور روحانی زخموں کے بارے کیا؟
آپ ان کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں؟
میں خود بھی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا!
اگر آپ ایک ایسے یتیم ہوں کہ جس نے اپنے پورے خاندان کو اپنی آنکھوں کے سامنے پگھلتے دیکھا ہو۔۔ ٹکڑے ٹکڑے ہوتا دیکھا ہو۔۔ تو آپ کیسے اسے تحمل کر سکتے ہیں؟ کبھی بھی نہیں!
درحقیقت بہت سے فلسطینی بچے ایسے ہیں کہ جن کے تمام گھر والے مارے جا چکے ہیں
اور ڈاکٹروں نے ان کے لئے مخفف بنا رکھا ہے
وہ زخمی بچہ جس کے گھر کا کوئی فرد باقی نہیں بچا!
ڈاکٹر پرلمٹر کی جانب سے مدد کی اپیل پر واشنگٹن میں موجود دوسرے امریکی ڈاکٹروں کا کہنا ہے
ہم نے اسے المیہ، ڈراؤنا خواب، زمین پر جہنم اور ان تمام الفاظ کے ذریعے بیان کیا ہے
ہمارے پاس حتی سینیٹائزر یا الکحل بھی نہیں ہوتی تھی!
جب میں وہاں تھا تو ہم یہ سنتے تھے کہ امداد آ رہی ہے!
عام شہریوں کاخیال رکھا جائے گا
عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔۔ وغیرہ وغیرہ
لیکن ہم اپنی آنکھوں سے اس سے یکسر مختلف داستان دیکھتے تھے!
ہم نے درجنوں میلوں تک 18 ویلر ٹریلے کھڑے دیکھے، بمپر کے ساتھ بمپر اور انجن بند!
غزہ میں کتنے بچوں کو بھوک سے جان دے دینے کا خطرہ لاحق ہے؟ جو غزہ سے باہر بیکار کھڑے تھے جن میں خوراک يا طبی امدادی سامان تھا! غزہ کے تمام بچوں کو! مکمل طور پر ان تمام بچوں کو۔۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کو قحط کا نشانہ بنانے کے لئے ایک منظم کمپین شروع کر رکھی ہے!