مذہبی انتہا پسندی اور چیف جسٹس پر یلغار
سپریم کورٹ نے ایک احمدی شہری کو ضمانت دینے کے سوال پر پیدا ہونے والے تنازع کے بعد وضاحت کی ہے کہ اس بارے میں غلط اور بے بنیاد خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔ پریس ریلیز میں عدالت عظمی کے ججوں کے ایمان اور نیک نیتی کی ضمانت فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ معمول کے ایک عدالتی فیصلہ پر دین کے نام پر کاروبار کرنے والے ملاؤں کے واویلا اور ملک کے چیف جسٹس کی وضاحت سے بطور ملک و معاشرہ پاکستان کے زوال کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔
پاکستان میں مذہب کو مقدس بتا کر عوام کو گمراہ کرنے کا سلسلہ نیا نہیں لیکن اب یہ رویہ اس حد تک بے قابو ہو چکا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت بھی مذہب کے نام پر پھیلائے جانے والے جھوٹ اور الزام تراشی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور دکھائی دیتی ہے۔ حیرت ہے کہ جس معاشرے میں جہالت اور انتہا پسندی کو اس حد تک عام کر دیا جائے، وہاں کسی فلاح اور آگے بڑھنے کا امکان کیسے باقی بچے گا۔ ملک میں مذہبی انتہاپسندی کا یہ رجحان نہ تو اچانک پیدا ہوا ہے اور نہ ہی اس افسوسناک طرز عمل کو بڑھاوا دینے میں کسی ایک گروہ اور طبقہ کا ہاتھ ہے۔ بلکہ مذہبی گروہ ہی نہیں، ملک کی ہر سیاسی پارٹی بھی مذہب کو ہتھیار بنا کر عوام میں ’مقبولیت‘ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ مذہبی لیڈر تو عقیدے کے نام پر اشتعال کو اپنی طاقت میں اضافہ کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن سیاسی لیڈر بھی اپنی کوتاہیوں، ناکامیوں اور کمزوریوں کو چھپانے کے لئے بالآخر مذہبی نعروں ہی سے کام چلاتے ہیں۔
پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی تحریک انصاف ’ریاست مدینہ‘ کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کی تگ و دو کرتی ہے لیکن جب اس کے بانی چیئرمین عمران خان کو ساڑھے تین سال حکومت کا موقع ملا تھا تو وزیر اعظم سمیت، حکومت کے کسی اہل کار کا طریق زندگی نہ تو سنت رسولﷺ کے مطابق تھا اور نہ ہی حکومتی فیصلے شعائر نبوی کے مطابق طے پاتے تھے۔ اسی طرح ملک کی دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) کے رہبر اعلیٰ نے ایک زمانے میں خلافت راشدہ کے عہد کی یاد تازہ کرنے کے لیے ’مطلق العنان‘ حکمران بننے کی کوشش کی تھی۔ اب بھی یہ جماعت انتہاپسند مذہبی گروہوں کے ساتھ راہ و رسم میں کسی سے پیچھے نہیں۔ انتخابات میں آزاد ارکان کے طور پر کامیابی کے بعد خصوصی نشستوں کے حصول کے لیے تحریک انصاف نے اگر کسی سیاسی پارٹی میں پناہ لی تو وہ ایک چھوٹا سا مذہبی گروہ ہے جس کی کل سیاست مذہبی نعروں کی بنیاد پر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے۔
دیگر سیاسی پارٹیاں بھی وقتاً فوقتاً مذہبی جوش و خروش کو سیاسی قبولیت کے لیے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتیں۔ یہ کیسے مان لیا گیا ہے کہ اس ملک میں آگے بڑھنے کے لیے عوام کو مذہب کے نام پر جھوٹ بیچا جائے تو کامیابی کی سو فیصد ضمانت فراہم ہو سکتی ہے۔ انتخابات کے دوران دہشت گرد خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں علی الاعلان حملے کرتے رہے اور انتہاپسندانہ ایجنڈا عام کرنے کے لیے مصروف عمل رہے لیکن اس کی روک تھام کے لیے ریاست، حکومت یا سیاسی و مذہبی لیڈروں نے کبھی یہ دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی کہ مذہب کے نام پر قتل و غارت گری روکنے کا سلسلہ اس وقت تک بند نہیں ہو سکتا جب تک مذہب اور سیاست میں حد فاصل قائم نہیں کی جائے گی۔ جب تک یہ اصول تسلیم نہ کیا جائے کہ مملکت پاکستان کی جغرافیائی حدود میں رہنے والے ہر انسان کو زندہ رہنے اور اپنے عقیدہ کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ اس کی بجائے ملک میں مذہبی منافرت عام کر کے ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ضیا الحق کے سیاہ دور میں ’توہین مذہب‘ کے نام پر ملکی قوانین میں ایسی شقات شامل کی گئی تھیں جنہوں نے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران میں نفرت اور انتہاپسندی کو پروان چڑھایا ہے۔ درجنوں لوگوں کو توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر ہلاک کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض افراد کو تو مشتعل ہجوم نے بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر اذیت کے ساتھ مارا۔ ایسے واقعات پر ملکی میڈیا میں چند روز تاسف ضرور سامنے آتا ہے اور پوری دنیا کے سامنے پاکستان میں نفرت اور تعصب کا مکروہ چہرہ نمایاں ہوتا ہے لیکن کبھی ان انسان دشمن قوانین کو ختم کرنے کی بات زبان پر نہیں لائی جاتی۔ کیوں کہ ایسی کوئی بات توہین مذہب قرار پاتی ہے اور اس حوالے سے دلیل دینے والے کسی بھی شخص کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ توہین مذہب کے بے رحم، متعصبانہ اور انسان دشمن قوانین کے تحت درجنوں افراد برس ہا برس سے جیلوں میں بند ہیں لیکن کسی عدالت کو ان کا مقدمہ سننے کی توفیق نہیں ہوتی۔ کوئی عدالت ایسے ملزمان کی ضمانت نہیں لے سکتی کیوں کہ متعلقہ شقات کے تحت درج مقدمہ میں ضمانت کی اجازت نہیں ہے۔ یکے بعد دیگرے منتخب ہونے والی اسمبلیوں نے ایسے انسانیت سوز قوانین کو تبدیل کرنے کی ’ضرورت‘ محسوس نہیں کی۔
جب بھی کوئی المناک وقوعہ سامنے آتا ہے تو پورا نظام مذہبی انتہاپسندی کے سامنے سرنگوں ہوجاتا ہے۔ اس کا سب سے المناک نمونہ جنوری 2011 میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کی شہادت کے موقع پر دیکھنے میں آیا۔ سلمان تاثیر کو ان کے سرکاری گارڈ ممتاز قادری نے توہین رسولﷺ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اسلام آباد میں ہلاک کر دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے زعما کو سلمان تاثیر کی نماز جنازہ کا اہتمام کرنے کا حوصلہ نہیں ہوا تھا اور لاہور کے گورنر ہاؤس میں جلد بازی میں نماز جنازہ کے بعد ان کی تدفین کردی گئی۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے جھوٹے الزامات میں ایک غریب مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو انصاف دلانے کی بات کی تھی اور قانون میں ضیا الحق کی شامل کی ہوئی ترامیم پر نظر ثانی کا مشورہ دیا تھا۔ ان کے برعکس جب سپریم کورٹ کے حکم پر فروری 2016 میں قاتل ممتاز قادری کو پھانسی دی گئی تو اس کی نماز جنازہ میں پورا راولپنڈی اور اسلام آباد امڈ آیا تھا۔ اب بھی اسلام آباد کے نواح میں اس کی قبر کو درگاہ کی حیثیت حاصل ہے جہاں زائرین منتیں ماننے اور مرادیں پوری کروانے کے لیے آتے ہیں۔
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری سے پہلے جب ان کا نام ممکنہ امید واروں میں شامل تھا تو یہ افواہ پھیلا دی گئی کہ ان کا تعلق احمدی خاندان سے ہے۔ ایسی افواہیں پھیلانے والوں کی اسی طرح گرفت نہیں ہو سکی جیسے ممتاز قادری کو ’توہین رسولﷺ کے مرتکب سلمان تاثیر‘ کو ہلاک کرنے پر اکسانے والے مفتی حنیف سے کوئی بازپرس نہیں ہو سکی۔ البتہ عہدہ سنبھالنے کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ آئی ایس پی آر کے ذریعے حرمین شریفین میں حاضری کی تصاویر جاری کرا کے، خود کو ’راسخ العقیدہ‘ مسلمان باور کروانے کی کوشش کرتے رہے تھے۔ چودہ برس پہلے ممتاز قادری کو سلمان تاثیر کے قتل پر اکسانے والا مفتی حنیف قریشی، اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا میں پیش پیش ہے۔ وہ بھی اسی طرح ملکی قانون کی دسترس سے محفوظ ہے جیسے لال مسجد فیم ملا عبدالعزیز اسلام آباد میں پوری تمکنت سے زندگی گزار رہا ہے حالانکہ وہ فوج اور مدرسہ کے طلبہ میں تصادم کا ماسٹر مائنڈ تھا جس میں فوجی افسروں سمیت ایک سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
ملک میں مذہبی انتہاپسندی اور عقیدے کے نام پر پھیلائی گئی گمراہی کے اسی ماحول میں اب ایک احمدی شخص کو ضمانت دینے کے معاملہ پر متعدد دینی رہنماؤں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی پر شدید تنقید کی ہے۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم چلائی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی پریس ریلیز میں واضح کیا گیا ہے کہ ’الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں اور ایسا تاثر دیا جا رہا ہے جیسے سپریم کورٹ نے دوسری آئینی ترمیم (مسلمان کی تعریف) سے انحراف کیا ہے‘ ۔ سپریم کورٹ نے اپنے ہی چیف جسٹس کے لکھے ہوئے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مقدمے میں عدالت نے یہ قرار دیا تھا کہ ایف آئی آر میں مذکورہ الزامات کو جوں کا توں درست تسلیم بھی کیا جائے تو ملزم پر ان دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ بلکہ فوجداری ترمیمی ایکٹ 1932 کی دفعہ پانچ کا اطلاق ہوتا ہے جس کے تحت ممنوعہ کتب کی نشر و اشاعت پر زیادہ سے زیادہ 6 ماہ کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے‘ ۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کسی اسلامی اصول یا کسی آئینی یا قانونی شق کی تعبیر میں عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو اس کی تصحیح و اصلاح اہل علم کی ذمہ داری ہے۔ اور اس کے لیے آئینی اور قانونی راستے موجود ہیں۔ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ نے کسی کو نظر ثانی سے نہ پہلے روکا ہے نہ ہی اب روکیں گے‘ ۔
اس سے پہلے ایک دوسرے مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس کی صورت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ختم نبوت پر اپنے کامل یقین کا اعلان کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’نبی آخر الزماں کو کس نام سے یاد کیا گیا؟ انہیں رحمت للعالمین کہا گیا ہے۔ کیا صرف مسلمانوں کے لیے؟ وہ پرندوں کے لیے بھی، تمام جہانوں کے لیے بھی ہیں۔ معراج کی رات کیوں تمام انبیا نے نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، یہ بتائیں؟ کسی اور پیغمبر کو کیوں یہ اعزاز نہ دیا گیا؟ حضرت ابراہیم نے انہیں دعوت دی تھی کہ آپ امامت کرائیں۔ اس کا مطلب تھا کہ آپ ﷺ کے بعد بات ختم۔ ہمیں نبی ﷺ سے ہی رہنمائی لینی ہے، ہم مذہبی ریاست ہیں، ہمارے لیے آپ ﷺ کی ذات سرچشمہ ہدایت ہے‘ ۔
ان ریمارکس اور سپریم کورٹ کی پریس ریلیز سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مذہبی تصورات کو اس حد تک زہر آلود کر دیا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے منصب پر فائز کوئی شخص بھی دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ حالانکہ 6 فروری کو دیے گئے جس فیصلہ کا حوالہ دے کر قیامت کا سماں پیدا کیا جا رہا ہے، اس میں عدالت نے ان شقات کے تحت گرفتاری کو غلط کہا تھا جو ایف آئی آر میں ہی شامل نہیں تھیں اور نہ ہی، ملزم پر وہ الزام عائد تھا جو شقات 298 اور 295 بی کے تحت جرم ہے۔ اسی لیے عدالت نے ملزم کے خلاف ان شقات کو خارج کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس فیصلہ کو مذہب پر حملہ اور ملک کے احمدیوں کو غیر مشروط حقوق دینے والا فیصلہ قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کیا گیا۔ مذہب فروشوں نے اپنی اپنی دکان کھول کر حقائق کو مسخ کر کے ملک میں ایک نیا طوفان برپا کرنے کی کوشش کی ہے۔
حالیہ انتخابات میں مذہبی جماعتوں کی عبرت ناک شکست کے بعد، اس رد عمل کو درحقیقت پاکستانی عوام سے ’انتقام‘ لینے کا ہتھکنڈا سمجھنا چاہیے۔ اس ایک واقعہ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کیوں حقیقی مسائل پر توجہ نہیں دی جاتی۔ مذہبی گروہ کیسے حکومتی ہی نہیں، عدالتی فیصلہ سازی میں حرف آخر بننے کے دعوے دار بنے ہوئے ہیں۔ اپنے ہی شہریوں کے حقوق کے خلاف عقیدے کا علم اٹھا کر طوفان اٹھانے والا کوئی ملک کیسے ترقی کے سفر پر گامزن ہو سکتا ہے؟