آنسو بھری راہ گزر
نقشے میں آپ دیکھیں گے کہ یورپ اور افریقہ کو جدا کرنے والے بحیرہ روم کو نہر سویز بحیرہ قلزم کے راستے بحرِ ہند اور پھر ایشیا اور آسٹریلیا سے جوڑتی ہے۔ بحر ہند میں کھلنے والا یہ راستہ یمن اور جیبوتی کے درمیان واقع چھبیس کلومیٹر چوڑی آبنائے باب المندب کا مرہونِ منت ہے۔
اگر نہر سویز یا باب المندب بند ہو جائے تو پھر یورپ اور ایشیا کے درمیان سفر کرنے والے ہر تجارتی جہاز کو پرانے زمانے کی طرح پورے براعظم افریقہ کا چکر لگاتے ہوئے بحر اوقیانوسں کے ذریعے براستہ جبل الطارق چھ ہزار کلو میٹر کا اضافی فاصلہ طے کر کے بحیرہ روم میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ یوں اشیا کی نقل و حمل کی لاگت میں کم از کم تین گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔
بحیرہ روم کو بحیرہ قلزم سے ملانے والی نہر سویز اور آبنائے باب المندب ایک دوسرے پر مکمل انحصار کرتے ہیں۔مثلاً انیس سو سڑسٹھ کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد بہت سے جنگی جہاز ڈوبنے کے سبب اور نہر کے آر پار اسرائیلی اور مصری فوجیوں کی آمنے سامنے مورچہ بندی نے نہر سویز بند کر دی۔
آٹھ برس بعد انیس سو پچھتر میں امریکی ثالثی میں مصر اور اسرائیل کے کامیاب مذاکرات کے سبب ہی نہر سویز کو کھولا جا سکا۔ (پہلی بار یہ نہر نومبر انیس سو چھپن میں مصر پر اسرائیل، فرانس اور برطانیہ کے مشترکہ اچانک حملے کے نتیجے میں چار ماہ بند رہی۔ اس حملے کا سبب یہ تھا کہ مصر نے نہر برطانیہ اور فرانس سے چھین کر قومی ملکیت میں لے لی تھی)۔
ان دنوں نہر سویز تو کھلی ہوئی ہے مگر یمنی حوثیوں نے گزشتہ تین ماہ سے باب المندب میں اسرائیل کو رسد پہنچانے والے مال بردار جہازوں کی ٹریفک اپنے چھاپہ مار حملوں کے ذریعے روک دی ہے۔حوثی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جب تک غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت جاری ہے باب المندب ایک خطرناک گزرگاہ بنی رہے گی۔
حوثی کارروائیوں کے نتیجے میں اسرائیلی بندرگاہ ایلات میں تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہو گئی ہیں۔ یہ بندرگاہ زیادہ تر چین سمیت ایشیائی ممالک سے اسرائیلی تجارت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ مگر اسرائیلی معیشت کو اس ناکہ بندی سے کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا۔کیونکہ اس کی پچاسی فیصد تجارت بحیرہ روم کے راستے ہوتی ہے۔
اسرائیل کے چینل تھرٹین کے مطابق اسرائیل نے بحیرہ قلزم کے راستے ہونے والی تجارت کے لیے متبادل راستہ ڈھونڈھ لیا ہے اور غیر اعلانیہ طور پر دوبئی سے براستہ سعودی عرب و اردن اسرائیلی درآمد و برآمد کا سلسلہ جاری ہے۔جو خلیجی ممالک آج اسرائیل سے اقتصادی تعاون کر رہے ہیں وہی ممالک غزہ کی چار مہینے سے جاری خونی ناکہ بندی ختم کروانے میں بری طرح ناکام ہیں۔
صرف یمنی حوثی ہی ہیں جو اس علاقے میں فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر اپنی سکت کے مطابق مزاحمت کر رہے ہیں۔اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کے بدلے کسی ٹھوس بین الاقوامی ردِعمل کا سامنا نہیں۔مگر حوثیوں کو باب المندب کی اقتصادی ناکہ بندی کی سزا مغربی فضائی افواج کی جانب سے مسلسل بمباری کی شکل میں مل رہی ہے۔
حالانکہ یمنیوں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔دنیا کے انتہائی غریب ترین ممالک میں شمار یہ خطہ پچھلے آٹھ برس سے خلیجی ریاستوں کے فوجی اتحاد کے نشانے پر ہے اور اس کی تین چوتھائی آبادی یا تو دربدر ہو چکی ہے یا پھر ناکافی غذائیت اور فاقہ کشی میں مبتلا ہے۔ان برسوں کے دوران خلیجی اتحاد کی جنگی مہم میں لگ بھگ ایک لاکھ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔اقتصادی و تعمیراتی ڈھانچہ لگ بھگ برباد ہے۔اس حالت میں بھی یمنی حوثی غزہ کے محصور فلسطینیوں کے لیے اپنی تکالیف بھول کر جو کر سکتے ہیں کر رہے ہیں۔
اس کے برعکس مصری کمپنیاں غزہ میں محصور فلسطینیوں کو محفوظ راہ داری دینے کے بدلے ان سے اور غزہ میں بین الاقوامی امداد لے کر داخل ہونے والے ٹرکوں سے بھاری رقوم اینٹھ رہی ہیں اور اس کارِ خیر میں رفاہ کی راہ داری پر متعین مصری سرحدی حکام بھی شریک ہیں۔
حوثیوں کو مغربی فضائی افواج کے مشترکہ حملوں کا اس لیے سامنا ہے کہ بحری تجارت تلپٹ ہونے سے روانہ دس کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اگر صورتِ حال جوں کی توں رہی تو مغربی جہاز راں کمپنیوں اور معیشتوں کو سالانہ ایک کھرب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچے گا۔
نہر سویز اور باب المندب کے راستے بارہ فیصد عالمی تجارت ہوتی ہے۔جہاز رانی کی چالیس فیصد ٹریفک یہاں سے گزرتی ہے۔گزشتہ برس نہر سویز سے گزرنے والوں جہازوں کی راہ داری سے مصر کو لگ بھگ دس ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی۔مگر باب المندب کے راستے جہاز رانی متاثر ہونے کے سبب نہر سویز سے ہونے والی آمدنی بھی بہت کم ہو گئی ہے۔
مغربی جہاز راں کمپنیوں کو اس راستے کے معطل ہونے کے نتیجے میں جو نقصان ہو رہا ہے۔ اس کی بھرپائی کے لیے انھوں نے اپنے مال برداری کے نرخوں میں تین گنا اضافہ کر دیا ہے۔جب کہ صنعتی ممالک کو جو تجارتی نقصان ہو رہا ہے وہ بھی تیار شدہ مصنوعات اور خام مال کی قیمتوں میں اضافے سے پورا ہو جائے گا۔
اصل گھاٹے میں ترقی پذیر دنیا ہے جو پہلے ہی روس اور یوکرین کی جنگ کے سبب غلے اور کھاد کی مہنگائی و کمیابی کی زخم خوردہ ہے۔اب اسے باب المندب بند ہونے سے برآمد و درآمد کے تناظر میں اضافی مالی بوجھ کا سامنا ہے۔اور یہ بوجھ بھی حکومتیں خود اٹھانے کے بجائے اپنے عوام کی کمر پر لادنے پر مجبور ہیں۔صنعتی و سرمایہ دار ممالک کی جانب سے یوکرین کی بھرپور عسکری و اقتصادی مدد اس لیے ہو رہی ہے کیونکہ یوکرین اٹھارہ فیصد عالمی غلہ پیدا کرتا ہے۔
باب المندب کھلا رکھنا اس لیے اہم ہے کیونکہ نہ صرف خلیج کا تیل اس راستے سے گزرتا ہے بلکہ عالمی تجارت کی چالیس فیصد سپلائی چین کا دار و مدار باب المندب پر ہے۔مگر غزہ میں سات اکتوبر کے بعد سے اٹھائیس ہزار سے زائد انسانوں کا قتل اور تئیس لاکھ انسانوں کی املاکی و غذائی بربادی کو روکنا اس لیے اہم نہیں کیونکہ غزہ کی اقتصادی و اسٹرٹیجک اہمیت مغربی دنیا کے لیے زیرو ہے۔کیا آپ جانتے ہیں باب المندب کا کیا لغوی مطلب ہے ؟ آنسو بھری راہ گزر۔۔تکلیف زدہ راستہ۔۔۔