امریکی سیاست پر اثرانداز ہونے کی خفیہ جنگ

377497-1928414545.jpg

ستمبر میں امریکی محکمہ انصاف نے روسی میڈیا کمپنی آر ٹی ( رشیہ ٹوڈے) کے دو ملازمین پر ریاست ٹینیسی میں ایک میڈیا سٹارٹ اپ کو ایک کروڑ ڈالر منتقل کے حوالے سے باضاطہ طور پر الزامات عائد کیے۔حکام نے ان پر منی لانڈرنگ، امریکی قوانین پر عمل نہ کرنے اور ان کے غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر اندراج نہ ہونے کا الزام لگایا۔تاہم، ان کے کیس نے ایک بڑے خطرے کو بھی اجاگر کیا: روس اور دیگر مخالفین کی جانب سے امریکی معلوماتی ماحول کو آلودہ کرنے کی جاری کوششیں۔روسیوں اور دیگر نے 2016 اور 2020 کے صدارتی انتخابات کے دوران بھی اسی طرح کی کوششیں کیں تاکہ امریکیوں کے روزمرہ کے استعمال کی خبروں اور میڈیا رپورٹس میں غلط معلومات شامل کی جا سکیں۔ اس سال بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔

ٹینیسی میں قائم کمپنی نے، غیر ارادی طور پر نمایاں دائیں بازو کے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد اور تبصرہ نگاروں کی شمولیت کے ساتھ، انگریزی زبان میں ویڈیوز تیار کیں اور انہیں ٹک ٹاک اور یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹ کیا۔امریکہ کے محکمۂ انصاف کی جانب سے عائد کردہ فرد جرم میں یہ بات واضح کی گئی کہ یہ ویڈیوز وہ خیالات فروغ دیتی تھیں جو ماسکو کے مفادات کے مطابق امریکی داخلی تقسیم کو بڑھانے کی کوشش کرتی تھیں۔حکام نے ان دونوں پر منی لانڈرنگ، امریکی قانون کی تعمیل نہ کرنے اور بطور غیر ملکی ایجنٹ رجسٹر نہ ہونے کا الزام عائد کیا، لیکن ان کے کیس نے ایک بڑے خطرے کو بھی اجاگر کیا کہ روس اور امریکہ کے دیگر مخالفین کی جانب سے امریکی معلوماتی ماحول کو آلودہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

2016 اور 2020 کے صدارتی انتخابات میں روس اور دیگر ملکوں نے اسی طرح کی کوششیں کیں کہ غلط معلومات کو ان خبروں اور دیگر میڈیا رپورٹوں میں شامل کیا جا سکے، جنہیں امریکی شہری باقاعدگی سے دیکھتے ہیں۔ اس سال بھی صورت حال مختلف نہیں۔دائیں بازو کے واضح اثر و رسوخ رکھنے والے افراد اور تبصرہ نگاروں کی نادانستہ شرکت کے ساتھ ٹینیسی میں قائم کمپنی نے انگریزی زبان میں ویڈیوز بنائیں اور انہیں ٹک ٹاک اور یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹ کیا۔امریکی محکمہ انصاف کی عائد کردہ فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ یہ ویڈیوز ’امریکہ میں داخلی تقسیم کو بڑھانے کی ماسکو کے مفاد‘ کے مطابق خیالات کو فروغ دیتی تھیں۔روس، چین اور ایران کی اثرانداز ہونے کی کارروائیاں امریکی جمہوریت کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہیں۔

نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کے دفتر کے مطابق غیر ملکی طاقتیں شاید ’انتخابی نظام کی سالمیت پر حملہ‘ کرنے کی کوشش نہیں کر رہیں لیکن وہ غلط معلومات کو استعمال کر کے ’انتخابات اور انتخابی عمل کی سالمیت پر اعتماد کو کمزور کرنے اور امریکی شہریوں کے درمیان تقسیم کو گہرا کرنے‘ کی کوشش کر رہی ہیں۔اگرچہ 2016 کے صدارتی انتخاب میں روسی مداخلت پر امریکہ میں کھلے عام مذمت کی گئی لیکن کریملن اور دیگر آمرانہ حکومتیں اب بھی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ امریکیوں کے خیالات اور دنیا کو سمجھنے کے طریقے پر اثر انداز ہوں۔امریکہ نے اپنے مخالفین کی جانب سے امریکی ووٹروں کے دل اور دماغ کو متاثر کرنے کی کوششوں کے خلاف سرد ردعمل دکھایا ہے، لیکن وہ مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔

اسے اپنے سکیورٹی اداروں اور وزارتوں کے کرداروں کو ہم آہنگ کرنا ہوگا تاکہ غیر ملکی اثر و رسوخ کے آپریشنز کے خطرے سے بہتر طور پر نمٹا جا سکے۔اسے سوشل میڈیا کمپنیوں اور دیگر نجی اداروں کے ساتھ ہم آہنگی کے طریقے ڈھونڈنے ہوں گے تاکہ ان کے پلیٹ فارمز پر غلط معلومات کے پھیلاؤ کو محدود کیا جا سکے۔اسے داخلی سطح پر آزادی اظہار کے حق کا دفاع کرنا ہو گا۔ اس حق کو نقصان پہنچانے والے عناصر کے ہاتھوں غلط استعمال ہونے سے بھی بچانا ہو گا۔اسے اپنے مخالف ممالک میں اپنا بیانیہ بھی پھیلانا ہو گا اور اپنے مخالفین کو اسی طرح سزا دینی ہو گی جس طرح وہ امریکہ کو سزا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کریملن کا ہدف

جیسے جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے گذشتہ دو دہائیوں میں تیزی سے ترقی کی ہے، حکومتوں نے اپنے پیغامات پھیلانے اور اپنے مخالفین کو کمزور کرنے کے لیے نئے چینلز دریافت کیے ہیں۔ روس نے 2016 کے امریکی صدارتی انتخاب کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔2017 کی امریکی انٹیلی جنس کہ وہ رپورٹ جو خفیہ نہیں، کے مطابق روسی ایجنٹوں نے ڈیموکریٹس اور رپبلکنز دونوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔اس مقصد کے لیے انہوں نے ہیکنگ کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کو افشاں کیا اور سوشل میڈیا کو اشتعال انگیز مواد سے بھر دیا۔اس سال کا انتخاب بھی کریملن کے نشانے پر ہے۔ نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کے دفتر کی جولائی کی رپورٹ کے مطابق روس ’امریکی انتخابات کے لیے سب سے بڑا خطرہ‘ ہے اور ’اپنا کردار بہتر انداز میں چھپانے کے لیے کام کر رہا ہے۔

روسی صدر ولادی میر پوتن کا ماننا ہے کہ امریکہ میں تقسیم کو بڑھا کر وہ امریکی عالمی بالادستی کو کمزور اور روس کی عالمی طاقت کی حیثیت کو بحال کر سکتا ہے۔اس مقصد کے لیے روسی ایجنٹوں نے امریکی سیاست کے متنازع موضوعات، مثال کے طور پر اسقاط حمل، اسلحہ رکھنے کی اجازت، امیگریشن، اور یوکرین کے لیے امریکی حمایت سے متعلق اشتعال انگیز پیغامات سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے۔ٹرولنگ میں مصروف روسی ایجنٹ مصنوعی ذہانت کا استعمال کر کے خود کو امریکی شہری ظاہر کرتے ہوئے غلط معلومات اور اشتعال انگیز مواد پھیلا رہے ہیں۔ کریملن نے نائب صدر اور صدارتی امیدوار کملا ہیرس کے خلاف منفی مہمات چلائیں۔ان کے بارے میں ویڈیوز کو اس انداز میں تبدیل کیا کہ ان پر شک پیدا ہو۔روس نے امریکی انتخابات کی سالمیت پر سوال اٹھانے والے بیانیے کو فروغ دیا۔ جیسے کہ ایک ویڈیو میں دکھایا گیا کہ کوئی شخص پنسلوینیا میں ووٹ پھاڑ رہا ہے۔ حالاں کہ یہ بات غلط ہے۔

اب ماسکو کے امریکی سوشل میڈیا پر حملے میں پیسے دے کر چھپوائے جانے والے اشتہارات، جعلی پروفائلز سے مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ مواد کو فروغ دینا اور خود کو میڈیا کے حقیقی ادارے ظاہر کرنے والی ویب سائٹس کے لنک شامل ہیں۔ ان کارروائیوں کا مقصد روس کے نقطہ نظر کے مطابق دوستانہ بیانیہ پھیلانا ہے۔ان کوششوں پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ روس طویل عرصے سے معلومات کو بطور ہتھیار دیکھ رہا ہے اور اسے مغرب کے خلاف معلومات کی جنگ سمجھتا ہے۔روسی وزارت دفاع کے جریدے ’وائنیامسل‘ کے ایک مضمون کے مطابق ’انفارمیشن ٹیکنالوجی میں جاری انقلاب، معلومات اور نفسیاتی جنگ بڑی حد تک فتح کی بنیاد رکھیں گے۔پالیسی ساز چاہتے ہیں کہ روس عسکری اعتبار سے مخالف ریاست اور معاش کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے ’بڑے پیمانے پر شہریوں کی نفسیات پر اثرانداز ہونے کے عمل کو‘ آلے کے طور پر استعمال کریں۔روس تنہا نہیں ہے جو امریکہ میں انتشار اور تقسیم پھیلانے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔

امریکی انٹیلی جنس حکام نے خبردار کیا ہے کہ ایران نے بھی امریکی صدارتی الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔امریکی انٹیلی جنس حکام کے مطابق تہران، ماسکو کی طرح، امریکیوں میں بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ امریکہ کی عالمی بالادستی کو کمزور کیا جا سکے۔ جبکہ روس ٹرمپ کی حمایت کرتا ہے، ایران کملا ہیرس کو ترجیح دیتا ہے۔قبل ازیں رواں سال ایرانی ہیکرز نے مبینہ طور پر ٹرمپ کی انتخابی مہم سے فائلیں چرائیں اور انہیں صدر جو بائیڈن کی دوبارہ صدر بننے کے لیے انتخابی مہم اور ذرائع ابلاغ کو افشا کیا (جن میں سے کسی نے بھی ان معلومات کو نہیں دکھایا)۔مائیکروسافٹ کے مطابق ایک ایرانی ہیکنگ گروپ نے سوشل میڈیا پر امریکی صدارتی انتخاب کے بائیکاٹ کی حمایت میں پیغامات بھی پوسٹ کیے۔ یہ کام غزہ کی لڑائی پر احتجاج کے طور پر کیا گیا۔

فروری میں نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کے دفتر نے بھی خبردار کیا کہ چین نے اپنی آن لائن کارروائیوں میں شدت لائی جس کا مقصد ’امریکی قیادت کے بارے میں شک و شبہات پیدا کرنا، جمہوریت کو کمزور کرنا، اور بیجنگ کے اثر و رسوخ کو وسعت دینا ہے۔سوشل میڈیا پر چینی گروپوں کی توجہ صدارتی انتخاب پر مرکوز رہی۔ وہ رپبلکنز پر حملے کرتے رہے جو عام طور پر چین کے ناقد ہیں۔ چینی اثر و رسوخ کا ایک اور نمایاں آپریشن، ’سپیموفلاج‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس طریقے سے امریکی شخصیات کی جعلی شناختیں استعمال کی گئیں تاکہ صدارتی انتخاب کے حوالے سے عدم اطمینان پھیلایا جا سکے۔اس طرح کے سوشل میڈیا صارفین نے دونوں امیدواروں پر تنقید کی اور متنازع موضوعات پر پوسٹس کیں۔ مثال کے طور پر تولیدی حقوق اور اسرائیل کے لیے امریکی حمایت۔

انتشار پھیلانا

وہ جو سوشل میڈیا پر ایک سادہ ملا جلا ہجوم لگتا ہے، حقیقت میں زبردست طاقت رکھتا ہے۔براہ راست متاثر کرنے کے لیے کی جانے والی کارروائیوں کا مقصد شہریوں کی رائے کی تشکیل کے لیے دشمن کے فیصلہ سازی کے عمل میں تبدیلی پیدا کرنا ہوتا ہے۔اشتعال انگیزی کی کارروائیوں کے وسیع نتائج کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے، چاہے وہ ہونے کے دوران ہو یا ان کے ختم ہونے کے بعد۔یہ سرگرمیاں طویل مدتی ہوتی ہیں، جن کا مقصد نشانہ بنائے گئے لوگوں میں طویل عرصے تک انتشار، بے چینی، اور شکوک و شبہات پیدا کرنا ہوتا ہے۔کوئی ایک پیغام کسی ایک صدارتی امیدوار کے حق میں انتخاب کو نہیں جھکا سکتا۔بلکہ یہ ان اشتعال انگیزی کی کارروائیوں کا تسلسل ہے جو آہستہ آہستہ عوامی جذبات کو متاثر کرتا ہے، شہریوں کی رائے کو تبدیل کرتا ہے اور، آخرکار ملک کی اندرونی سیاست کو نقصان پہنچاتا ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے