کیا پاکستان اپنی سرزمین پر چینی سیکیورٹی اداروں کو متحرک ہونے کی اجازت دے گا؟
افغانستان پر طالبان کی حکومت آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں میں نمایاں تبدیلی آئی ہے جوکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے چیلنج ہے کہ وہ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمت عملی ترتیب دیں۔فی الوقت پاکستان نے انسدادِ دہشتگردی کے حوالے سے تمام دہشتگرد گروہوں بشمول مذہب کے نام پر دہشتگردی کرنے والوں کے خلاف زیرو ٹالرنس کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ تاہم اس طرح کی حکمت عملی کے ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں جبکہ اس نے ملک میں موجود غیرملکی شہریوں کے لیے سیکیورٹی خطرات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ چینی شہریوں کو گزشتہ 6 ماہ میں دو بار نشانہ بنایا گیا جبکہ غیرملکی سفارتکاروں کے قافلے پر سوات میں حملہ کیا گیا جس میں وہ بال بال بچ گئے۔
چین جسے شدید سیکیورٹی خدشات کا سامنا ہے، اس نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اس کے مفادات کے لیے خطرہ تصور کیے جانے والے دہشتگرد گروہوں کے خلاف اپنی کوششیں تیز کرے۔چین، پاکستان کی قیادت کو اپنے سیکیورٹی خدشات سے آگاہ کرنے کے لیے اعلیٰ سطح کے سفارتی ذرائع کا استعمال کرتا رہا ہے جبکہ اس نے’ آپریشن عزمِ استحکام’ کے نام سے انسدادِ دہشتگردی کی ایک جامع مہم کا اعلان کرنے میں دباؤ ڈالا۔ حال ہی میں چین پر وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا کہ وہ گزشتہ ماہ کراچی میں چینی شہریوں پر ہونے والے دہشتگرد حملے کی تحقیقات کا بذاتِ خود جائزہ لیں گے۔تاہم پاکستان کی جانب سے ان تمام یقین دہائیوں کے باوجود چین کے خدشات میں کمی نہیں آئی ہے۔ پاکستان میں تعینات چینی سفیر جیانگ زیڈونگ کی جانب سے دیا جانے والا حالیہ بیان، چین کی مایوسی کا عکاس ہے۔
ایک عوامی سمینار میں چینی سفیر نے نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار کی سرزش کی۔ انہوں نے اس بیان کو بھی مسترد کیا جس میں اسحٰق ڈار نے سیکورٹی خطرات کے درمیان چین کے صبر کی تعریف کی۔ چینی سفیر نے واضح طور پر کہا کہ 6 ماہ کی مدت میں دو حملے ناقابلِ قبول ہیں اور انہوں نے پاکستانی حکومت پر زور دیا کہ وہ چین کے لیے خطرہ سمجھا جانے والے تمام دہشتگرد گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔چین کے خدشات کو دور کرنے کے لیے پاکستان کیا کر سکتا ہے؟ آپریشن عزمِ استحکام نے اب تک کیا حاصل کیا ہے اور یہ مہم کتنی پائیدار ہے؟ یہ سوالات اہم ہیں بالخصوص اب کہ جب چین دہشتگردوں کے خلاف فیصلہ کُن کارروائیوں کا مطالبہ کررہا ہے۔
یہ خیال پایا جاتا ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بڑی فوجی کارروائیاں کرنے سے دہشتگردوں کے نیٹ ورکس ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی اہم مطالبہ ہے کیونکہ فوجی کارروائیاں مکمل طور پر دہشتگردی ختم کرنے میں کارآمد بھی ثابت نہیں ہوتیں۔یہ بحث پہلے بھی کی جا چکی ہے کہ بلوچستان میں کسی بھی طرح کے فوجی آپریشن سے صوبے میں سیاسی اور سلامتی کا بحران پیدا ہوسکتا ہے جو صورت حال کو مزید پیچیدہ کردے گا جبکہ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے احتیاط سے کام لینا ہوگا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور اسلامک اسٹیٹ خراسان جیسے خطرات کے لیے پاکستان کو افغانستان کی طالبان حکومت سے مکمل تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم طالبان حکومت تعاون کرنے سے کترا رہی ہے جبکہ اس کے بجائے وہ ٹی ٹی پی کا ساتھ دے رہی ہے۔ اگر پاکستان دہشتگردی کے خلاف اپنی لڑائی میں سرحد پار کارروائیاں کرتا ہے تو اس سے طالبان اور ٹی ٹی پی کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔اگر چین یہ سمجھ لیتا ہے کہ فوجی کارروائیاں کیوں کارآمد ثابت نہیں ہوں گی تو ایسے میں ہمارے پاس دیگر کیا آپشنز ہیں؟ گمان ہوتا ہے کہ چین سلامتی کے شعبے میں گہرے تعاون کا خواہاں ہے۔ چونکہ دونوں ممالک کے درمیان موجودہ باہمی تعاون وہ اعتماد پیدا نہیں کررہا جس کی ضرورت ہے، اس لیے چین نے ایک مشترکہ سیکیورٹی طریقہ کار تجویز کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس میں سامنے آیا کہ چینی وزیراعظم لی چیانگ کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران پاکستان کے ساتھ بڑے انفرااسٹرکچر اور توانائی معاہدوں کے حصول کے لیے ایک اہم شرط کے طور پر مشترکہ سیکیورٹی طریقہ کار کی تجویز پر غور کیا گیا۔ اس دورے میں ایک اہم معاہدے پر دستخط کیے گئے جس کے تحت چینی شہریوں کی حفاظت کے ذمہ دار پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو 6 بلٹ پروف گاڑیوں اور تقریباً 20 فائر فائٹنگ ٹرک فراہم کیے جائیں گے۔پاکستان اپنی سرزمین پر باضابطہ طور پر چینی سیکیورٹی اداروں کی موجودگی کے حق میں نہیں ہے جبکہ اس نے خود سی پیک کو محفوظ بنانے اور چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے وسیع انفرااسٹرکچر تیار کیا ہے۔ 2016ء میں اسپیشل سیکیورٹی ڈویژن قائم کیا گیا جس میں 34 اور 44 لائٹ انفینٹری ڈویژنز ہیں جبکہ دونوں میں 15، 15 ہزار سیکیورٹی اہلکار ہیں۔ چند رپورٹس کے مطابق 34 لائٹ ڈویژن 2016ء جبکہ 44 لائٹ ڈویژن کا قیام 2020ء میں عمل میں آیا۔ اسپیشل سیکیورٹی ڈویژن کو فرنٹیئر کور، پولیس اور لیویز کے 32 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کی مدد بھی حاصل ہے۔
دہشت گردی سے متعلقہ خطرات کا پتا لگانے اور اسے ختم کرنے کے لیے ایک انٹیلی جنس نیٹ ورک بھی موجود ہے۔ اس مضبوط سیکورٹی انفرااسٹرکچر کے باوجود چینی شہریوں پر دہشتگردانہ حملے جاری ہیں۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ان میں سے کوئی بھی حملہ تعمیراتی سائٹ پر نہیں ہوا۔ 2018ء کے کراچی میں چینی قونصل خانے میں ہونے والے حملے کے علاوہ، چینی شہریوں پر تمام حملے ایسے مواقع پر ہوئے جب وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کررہے تھے۔داسو میں چینی کارکنوں کو لے جانے والی بس پر حملے کے بعد پاکستانی حکومت نے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار کو سخت کرتے ہوئے اور اضافی حفاظتی اقدامات کرکے چینی شہریوں کی حفاظت کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ پولیس فورسز کی ذمہ داریوں کا دائرہ ضلعی سطح تک بڑھا دیا گیا۔ ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومتوں کو چینی شہریوں کے لیے حفاظتی منصوبوں کا ماہانہ بنیادوں پر جائزہ لینے، ان کے سفری راستوں کو تبدیل کرنے اور دیگر احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔
تحقیقات سے سامنے آئے گا کہ چینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے صوبائی اور ضلعی انتظامیہ نے چوکس کردار ادا کیا ہے یا نہیں۔ ایس او پیز کے مطابق چینی شہریوں کو دہشتگردی کے خطرات کے پیش نظر بی-6 درجے کی بکتر بند گاڑیوں میں سفر کرنا چاہیے۔اکتوبر میں کراچی میں چینی شہریوں پر حملے نے سیکیورٹی اداروں میں موجود کمزوریوں کو اجاگر کیا اور ایس او پی کے نفاذ میں خامیوں کو بھی بے نقاب کیا۔ اگرچہ فی الحال چین اور پاکستان کے درمیان مشترکہ سیکیورٹی طریقہ کار کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں لیکن یہ امکان موجود ہے کہ چینی نجی سیکیورٹی کمپنیز پاکستان میں کام کرنے والے چینی کارکنان کے لیے سیکیورٹی فراہم کرسکتی ہیں۔ ایسے اقدام سے چین، پاکستان کی خودمختاری کا احترام کرے گا۔ کوئی تصور کرسکتا ہے کہ یہ ابتدائی قدم ہوگا اور اگر سکیورٹی خطرات میں کمی نہ آئی تو دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی تعاون مزید گہرا ہوسکتا ہے۔
مسئلہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلوص کا نہیں بلکہ بہتر صلاحیت اور نگرانی کے آلات تک مؤثر رسائی کا ہے جس کی وجہ سے کافی فرق پیدا ہوسکتا ہے۔ زیادہ وسائل کے ساتھ پاکستان مشترکہ سیکیورٹی طریقہ کار کی ضرورت سے بچ سکتا ہے۔ اب اس اقدام کو روکنا مشکل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔تاہم پاکستان یہ کرسکتا ہے کہ وہ مشترکہ سیکیورٹی کے طریقہ کار کو مخصوص علاقوں تک محدود رکھے اور ساتھ ہی یہ یقینی بنائے کہ اسپیشل سیکیورٹی ڈویژن اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیز ان ایس او پیز پر زیادہ سے زیادہ عمل کریں جنہیں غیرملکی شہریوں کی حفاظت کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔