حزب اللہ کے سربراہ کی شہادت کے علاقائی سیاست پر اثرات

2713942-hassannaserullah-1727523612-786-640x480.jpg

بظاہر کہانی یہ بھی ایک فرد کی ہے، جو کیلنڈر کی چند تاریخوں 1960، 1982، 1992، 2006، 2011، 2023 اور 2024 کے ماہ و سال کے اندر محدود ہے۔ حقائق کے وسیع سمندر میں من کے چھوٹے سے جزیرے کی تنگنائی اسے اس کیلنڈری تنگنائی سے باہر جانے دینے میں حائل رہی تو کہانی اتنی سی ہی لگے گی۔مگر بہ انداز دیگر دیکھا جائے اور چشم بینا کو سمندر کی وسعت کی طرح وسیع کر لیا جائے تو معاملہ ایک فرد اور کیلنڈر کی چند تاریخوں تک محدود رہنے کا نہیں رہتا بلکہ تاریخوں کی تنگنائی سے نکل کر تاریخ پر پھیل جاتا ہے۔ کبھی ایک تاریخ بن کر دکھتا ہے، کبھی ایک محور کی تاریخ اور کبھی تاریخ کا محور۔

ہاں! یہ ضرور ہے کہ اس نے 1960 میں لبنان کے ایک غیر معروف سے گھرانے میں جنم لیا، کچھ سال عراق میں تعلیم پائی، 1980 کی دہائی شروع ہوئی تو بہت سوں کی طرح یہ بھی لبنانی خانہ جنگی کا ایک رکن بن گیا۔ مگر بس ایک رکن کی طرح رکن بن کر رک نہیں گیا۔ اس نے 1982 میں اسی انقلابی لہر کو شعوری طور پر قبول کیا، جو ایران میں پچھلی دہائی میں ابھری تھی۔ اب اس انقلاب کے بعد بدلی ہوئی سوچ کے ساتھ پاسداران انقلاب کا لبنان میں پاسدار بن گیا اور 1982 میں حزب اللہ سے جڑ گیا۔ پھر آہستہ آہستہ نصراللہ ہی حزب اللہ بن گیا۔1992 میں حسن نصراللہ اسرائیل کے ہاتھوں فنا کے گھاٹ اتارے گئے اپنے پیشرو کے بعد حزب اللہ کی قیادت پر ایسا فائز ہوا کہ اپنے پیشرو کی طرح اسرائیل کی ہی بمباری کا بیروت کے جنوبی مضافات میں 27 ستمبر کو نشانہ بنا۔گویا یہ مزاحتمی تحریک کے ایسے مسند پر بیٹھنا تھا کہ جس میں خون دیا جاتا ہے۔ جس پر بیٹھنے والے کو جان دینا پڑتی ہے اور جس کا مسند نشین قربانی سے پیچھے نہیں ہٹتا۔

حسن نصراللہ نے حزب اللہ کی قیادت پر فائز رہتے ہوئے تقریباً 32 سال گزارے۔ مگر محض گزار نہیں دیے۔ اپنے ایک ایک ماہ و سال کا حزب اللہ، اس کے گرد و پیش اور پورے لبنان کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ پر اثر ثبت کر دیا۔ حسن نصراللہ، حزب اللہ، مزاحمت اور اسرائیل دشمنی یہ تمام الفاظ ایک دوسرے کا استعارہ بن گئے۔حسن نصراللہ اب اس دنیا کا رزق کھانے والوں میں شامل نہیں رہا۔ اس سے پہلے اس کے بےشمار ساتھی اور جوانسال بیٹا اس جہاں سے اسی مزاحمتی راستے پر چلتے چلتے جان سے گزر چکے ہیں۔ اب نو عمر بیٹی زینب نے بھی بابا کے ساتھ جان پیش کر دی ہے۔حزب اللہ کے حسن نصراللہ کے ساتھ لاکھ اختلاف سہی مگر اس کے دعوے، اس کی قربانی اور اس کے اسلوب قربانی کے سامنے اختلاف کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ سوائے اس کے کہ کسی کو انانیت و فرعونیت کی چاٹ یا خدانخواستہ اسرائیلیت کی چھاپ لگ چکی ہو۔

جمعہ کے روز اسرائیل نے اس بدترین بمباری میں حسن نصر اللہ کو ٹارگٹ کیا، جس کی منظوری اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے اقوام متحدہ کے سر پر سوار ہو کر اور اپنے اولیں سرپرست و اتحادی امریکہ کی گود میں بیٹھ کر دی تھی۔ نتن یاہو اس کے بعد امریکہ میں اپنا قیام مختصر کر کے واپس اسرائیل لوٹ گیا۔حملے کے لیے چنے گئے وقت سے متعلق جو خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں انہیں دیکھ کر امریکہ کی خطے میں کشیدگی کم کرنے کی کوششوں اور خواہش کی پائیداری بھی محل نظر لگتی ہے۔ خاص طور پر اسرائیل کے جاری فوجی آپریشنز کو دیکھتے ہوئے یہ سارا عمل ہی مشکوک دکھائی دیتا ہے۔

حسن نصراللہ قبلہ اول، فلسطین اور فلسطینی مزاحمت کار اتحادیوں کے لیے لڑتے لڑتے چلا گیا۔ جاں سے گزر گیا مگر اپنی ساری زندگی اسی راستے اور منزل کے نام کر دی۔ پورے استقلال و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ اس نے کبھی اضمحلال کو اپنے اوپر طاری کیا نہ خوف نے اسے آن پکڑا۔ حزب اللہ کو بناتے بناتے مزاحمت کا حوالہ بن گیا۔ مزاحمت کی تاریخ رقم کر گیا۔محض جذباتیت کی بنیاد پر جیا نہ حزب اللہ کو رہنے دیا۔ بلکہ تحریک مزاحمت بنا دیا۔ ایک ایسی تحریک مزاحمت جو دوسروں کے چندوں پر چلنے پر مجبور ہوئی نہ جدید ترین وسائل میں کسی کی احتیاج اس کی مجبوری رہی۔وہ ماضی کی درخشاں تاریخ سے جڑا رہا۔ مگر پوری طرح آج میں رہا۔ مراد یہ کہ جدت کو شدت سے چاہا۔ سرعت سے اپنایا۔ صلاحیت کو کمال تک پہنچایا۔ علم کو نافع بنایا۔ عمل کو ہتھیار کے طور پر اپنایا اور مستقبل کو نشان منزل دکھایا۔قلم، کتاب، مائیک اور کیمرہ بھی اس کے ہتھیاروں میں اسی طرح شامل رہے جس طرح اس نے توپ و تفنگ اور میزائلوں کو اپنی دسترس میں کیا۔

حسن نصراللہ کا تعلق لبنان سے تھا۔ لبنان میں رہا، لبنان میں جیا اور لبنان سے ہی ابدی زندگی کے سفر پر روانہ ہوا۔ ایک عرب کے طور پر لبنان ہی نہیں فلسطین کاز کے ساتھ روز اول سے کھڑا رہا۔کیا بیروت کے جنوبی مضافات میں حزب اللہ کے ہیڈکوارٹرز کی اسرائیلی بمباری سے تباہی اس تصور مزاحمت کو ملیا میٹ کر سکے گی؟ یہ سوال اہم ہے مگر اس کا جواب ہاں نہیں ہے۔حسن نصراللہ جو اپنے خاندان، بھائیوں اور رشتہ داروں سے کٹ کر رہ گیا تھا۔ مگر اپنے کاز سے بدرجہ اتم جڑا ہوا تھا۔ اس کی ساری کد و کاشت، تگ و دو ، جہد اور سعی استعداد جمع کرنے کی تھی۔ اپنی نہیں اپنے کاز کی فکر کے لیے گھلو، اپنے کاز کے لیے جیو ، اپنے کاز کے لیے جان دو۔اس کے بقول ایک لاکھ سپاہ اس کی حزب اللہ سے وابستہ ہے۔ جس کے لیے جدید ترین اسلحہ تک دسترس اس نے آسان تر بنا دی۔ لبنان کے اندر اور لبنان سے باہر گرد و پیش میں حزب اللہ کے نظریے اور راستے کے لوگ جگہ جگہ موجود ہیں۔ کیا اسرائیل کا ایک چھوٹا سا جزیرہ اپنے اردگرد پھیلے سمندر میں چین کی نیند سو سکے گا ۔۔۔ اس پر خود اسرائیل کی نیندیں اڑی جاتی ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ اتنی بڑی کارروائی کرنے کے بعد اسرائیل پر کوئی خبط سا سوار ہو گیا ہو اور اسے یہ نشہ سا محسوس ہو رہا ہو کہ وہ کامیاب ہو گیا۔ مگر کسی ریاست کی کامیابی کا یہ معیار آج تک قرار نہیں پایا کہ وہ ہمہ وقت جنگ میں رہے۔ جنگی جہازوں سے اپنے آس پاس بم گراتی رہے۔ ہمسایوں پر ٹینک چڑھاتی رہے اور دنیا بھر میں پھیلے اپنے شہریوں کو خطرات میں مبتلا کرتی رہے۔ یہ کر کے اسرائیل اور اس کا نتن یاہو ایک دو سال تو کسی غلط فہمی یا نشے میں رہ کر خوش رہ سکتے ہیں۔تاہم دنیا کی حقیقتیں اس سے بہت مختلف اور طویل مدتی ہیں۔ دنیا کے ساتھ تجارت، سفارت اور امن کے ساتھ رہنا پڑتا ہے جو اسرائیلی سوچ کے نقشے پر فی الحال دور دور تک نہیں ہے۔

جیسا کہ نتن یاہو نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ ’اسرائیل کا مشن ابھی پورا نہیں ہوا۔ آنے والے دن مزید کچھ لے کر آئیں گے ۔۔۔۔ خطے میں توازن کو بدلنے کے لیے حسن نصراللہ کو ختم کرنا ایک ضروری شرط تھی۔‘ گویا ہدف حسن نصراللہ نہیں تھا۔ ہدف پورے خطے میں توازن اسرائیل کے تابع رکھنا ہے۔ جو خطے کی تمام مملکتوں کے لیے بھی ایک نیا پیغام ہے۔حسن نصراللہ نے جس حماس اور جن فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے لبنان اسرائیل سرحد پر نپی تلی سی کوشش شروع کر رکھی تھی وہ اس وقت کی ضرورت تھی۔ اب حالات بدل گئے ہیں۔ اب نئی قیادت اور نئے فیصلے ہوں گے۔ طاقت اور چیلنج کو از سر نو تولا اور ناپا جائے گا۔ جو پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ اور پھیل چکا ہے۔

ایران کو بھی اپنے لیے ایک راستہ متعین کرنا ہو گا اور آس پاس کے دیگر عرب و عجم کے باسیوں کو بھی اپنے مقدر کا فیصلہ خود کرنے کا راستہ ہی بالآخر دیکھنا پڑے گا کہ انہوں نے اپنا نام قاتل نتن یاہو کی فہرست میں لکھوانا ہے یا مقتول حسن نصراللہ والی استقامت، عزت اور شہادت سے مزین فہرست میں۔بلاشبہ وسائل کی کمی نہیں۔ فہم و ادراک بےمثال ہے۔ افرادی قوت لاجواب ہے۔ مشرق وسطیٰ کے پاس بہت کچھ ہے۔ مشرق وسطیٰ اور اس سے جڑی مسلم دنیا کا ایک وسیع سمندر ہے۔ شاید اب وقت ہے کہ مشرق وسطیٰ کا یہ خطہ مل کر یورپی ریاستوں کو الگ الگ کر کے ان کے ساتھ ڈیل کرتے ہوئے سفارت و تجارت کو نیا رخ دے۔ ہاں ماضی سے ذرا ہٹ کر۔اسرائیل نے بیروت میں نائن الیون کے انداز میں مشرق وسطیٰ کے لیے نائن ٹو سیون کر دیا ہے۔ نائن الیون قبول نہیں تو نائن ٹو سیون کیونکر قبول کیا جا سکے گا۔ یہ آج بیروت میں ہوا ہے تو کل کہیں اور بھی کوشش ہو سکتی ہے جیسا کہ پورے خطے میں توازن نتن یاہو کا مقصد قرار پا چکا ہے۔

لبنان کے بعد لبنان سے جڑا ہوا کوئی ملک اور پھر اس سے اگلا ملک اور پھر اگلا ملک کہ اسرائیل کی حدود تو ابھی اسرائیلیوں نے لامحدود رکھی ہیں۔ تو کیوں نہ سارا مشرق وسطیٰ اسرائیل کے ذریعے بروئے کار اس نائن الیون سٹریٹیجی کو روکنے کے لیے باہم شیر و شکر ہو جائیں کہ جتنا اسلحہ اور ہتھیار حزب اللہ کو حسن نصراللہ دے گیا ہے۔ جو تنظیم اور تربیتی نظام فراہم کر گیا ہے وہ صرف ہیڈ کوارٹرز کے طاقچوں اور حسن نصراللہ کے دماغ تک محدود نہیں تھا۔سید حسن نصر اللہ کی اسرائیلی حملے میں موت سے خطہ سیاسی اور عسکری کشیدگی کے نئے مرحلے میں داخل ہونے جا رہا ہے۔ اس صورت حال کے ملکوں کی داخلی پالیسیوں اور ان کے اتحادیوں پر دو رس نتائج ہونے کے قوی امکانات دکھائی دیتے ہیں۔

یہ اہم واقعہ خطے کے سیاسی، عسکری اور سکیورٹی منظر نامے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے، جو آگے چل کر علاقائی اتحادوں اور تنازعات کے نقشوں میں تبدیلی کا موجب بھی ہو سکتا ہے۔راقم الحروف کی یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ اسرائیل کا حزب اللہ کے مرکزی دفتر پر فضائی حملہ صرف حسن نصر اللہ کی زندگی کے خاتمے کا ہی باعث نہیں بنا بلکہ اس سے دونوں فریقوں کے مابین مقابلے کے قواعد وضوابط بھی تبدیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس ہائی پروفائل قتل سے پیدا ہونے والے مضمرات کے ڈانڈے ایک جامع علاقائی جنگ سے ملتے دکھائی دے رہے ہیں ۔۔۔۔ الحفیظ الامان!

 

تجزیہ نگار :- منصور جعفر

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے