تلوار نگلنے والے ہندوستانی فنکار جنھوں نے انڈوسکوپی کی ایجاد اور طبی تحقیق کو نئی راہ دکھائی
تلوار حلق سے اندر غائب ہوتی اور چند لمحوں بعد معجزانہ طور پر واپس نکل آتی۔19 ویں صدی کی اُس خوشگوار شام جب جرمنی کے شہر ہائڈل برگ کی پُررونق گلیوں سے گزرتے ڈاکٹر ایڈولف کسمال ہجوم سے بلند ہونے والے شور کی جانب لپکے تو یہ حیران کر دینے والا منظر اُن کے سامنے تھا۔رابرٹ ینگسن نے ’دی میڈیکل میورِکس‘ میں لکھا ہے کہ ’تلوار نِگلنے کے مظاہرے سےمسحور ہوتے کسمال نے سوچا کہ کیا اِسی طرح کے عمل سے انسانی جسم کے اندر جھانکا جا سکتا ہے؟‘تلوار نگلنا ایک قدیم مہارت ہے اور بیری ڈی لانگ اور ہیرالڈ ایس پائن کی تحقیق ہے کہ یہ فن دو ہزار قبل مسیح میں ہندوستان سے شروع ہوا۔
19ویں صدی کی ابتدا کے ایک میگزین کے مطابق جب برطانیہ میں یہ فن پہلی بار پہنچا تو ہندوستان کے تلوار نگلنے والوں کی صلاحیتوں کو ناقابلِ یقین سمجھا گیا۔ سنہ 1813 میں ’تلوار نگلنے‘ کی تشہیر اس نئے اور حیران کن کارنامے کے طور پر کی گئی جو ہندوستانی کرتب دکھانے والوں نے اُس وقت لندن میں کیا۔اس فن کا مظاہرہ کرنے والے بعض اوقات یورپ اور امریکہ کا دورہ بھی کرتے اور اِن مظاہروں کی روداد ’دی ٹائمز‘ میں کچھ ان الفاظ میں چھپتی رہیں کہ ’تلوار نگلنے کے نئے پن نے عوام کی توجہ کسی بھی چیز سے ہٹ کر اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔ ہندوستانی جادوگروں نے تلوار نگل کر شہر کو حیران کر دیا ہے۔‘تلوار نگلنے کی یہ مہارت 19ویں صدی کے آخر تک یورپ سمیت پوری دنیا میں پھیل چکی تھی۔
لانگ اور پائن نے لکھا ہے کہ ’ڈاکٹر ایڈولف کسمال نے تلوار نگلنے کا کرتب کرنے والے ’آئرن ہنری‘ کی مدد سے ایک ایسا آلہ تیار کیا جسے بیماری کی جانچ کے لیے غذائی نالی کے ذریعے جسم کے اندر گہرائی تک لے جایا جا سکتا تھا۔ایلیزا برمن لکھتی ہیں کہ ڈاکٹر کسمال نے سنہ 1868 میں معدے کے اُوپری حصے کی پہلی جانچ یا طبی زبان میں ’اینڈوسکوپی‘ کا پہلا تجربہ ’آئرن ہنری‘ ہی پر کیا۔’کسمال ٹیومر والے مریض کی غذائی نالی میں کافی دور تک نہ دیکھ پانے پر مایوس تھے۔ آئرن ہنری نے 47 سینٹی میٹر لمبی ایک ٹیوب نگلی، جس کے ذریعے کسمال نے آئینے اور تیل کےلیمپ کی مدد سے تلوار نگلنے والے کے پیٹ میں تمام غذائی راستہ دیکھا۔‘
تلوار نگلنا خطرناک کرتب ہے جس میں جان بھی جا سکتی ہے۔ برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی خواتین اور مرد تلوار نگلنے والوں پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق آنتوں میں خون بہنے اور غذائی نالی میں سنگین زخم کے واقعات پیش آتے ہیں۔البرٹ ہاپکنز لکھتے ہیں کہ سنہ 1897 میں سٹیونز نامی سکاٹش معالج نے تلوار نگلنے والے معاون کے ساتھ ہاضمے کے تجربات کیے۔الیکٹرو کارڈیوگرام‘ کے الفاظ تو شاید ڈاکٹر ہی جانتے ہوں لیکن اُس کے مخفف ’ای سی جی‘ سے تو بہت سے لوگ واقف ہیں۔ ای سی جی یعنی دل کی سرگرمی جاننے کے لیے کیا جانے والا ٹیسٹ الیکٹروکارڈیوگرافی کہلاتا ہے۔اس کا تجربہ بھی 1906 میں ایک تلوار نگلنے والے پر کیا گیا جب جرمن ڈاکٹر ایم کریمر نے دل کی سرگرمی جاننے کے لیے اُن کی غذائی نالی سے ایک الیکٹروڈ داخل کیا۔
تلوار نگلنے والے آج میں طبی تجربات میں مددگار ہیں۔جنوری 2006 میں تلوار نگلنے کے ماہر ڈین میئر نے نیش وِل (ٹینیسی) میں محققّین کے ساتھ کام کیا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ آیا تلوار نگلنے میں شامل تکنیکوں کو نگلنے کی خرابی میں مبتلا مریضوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔سنہ 2007 میں تلوار نگلنے کے ماہر ڈائی اینڈریوز نے جان ہاپکنز یونیورسٹی میں ڈاکٹر شیرون کیپلان کے ساتھ کام کیا تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ آیا تلوار نگلنے کا استعمال ایسے مریضوں کی مدد کے لیے کیا جا سکتا ہے جن کے گلے کو شدید نقصان پہنچ چکا ہو۔ان تجربات کا فائدہ ظاہر ہے کبھی نہ کبھی خود تلوار نگلنے والوں کو پہنچتا ہے۔
صحافی اولیویا بی ویکسمن نے تلوار نگلنے والے اور اس فن کی تاریخ پر ییل میں لیکچر دینے والے ٹوڈ رابنس سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ اینڈوسکوپی ان کے لیے کیسے آسان رہی۔’مجھے اینڈو سکوپی کروانا تھی۔ عام طور پر وہ ٹیوب ڈالنے سے پہلے مریض کو بے ہوش کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ میں تلوار نگلنے والا تھا، ڈاکٹر نے بس اینڈوسکوپ میرے حوالے کی اور میں نے اسے نگل لیا۔مگر یہ پیشہ اب سمٹ رہا ہے۔تلوار نگلنے والوں کی عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ اس سے اب چند درجن پیشہ ور ہی بچے ہوئے ہیں۔ہر سال فروری کے آخری سنیچر، تلوار نگلنے والے یہ کرتب دکھاتے ہوئے اپنا عالمی دن مناتے ہیں۔ تلوار نگلنے والوں کی تنظیم کے مطابق اس قدیم فن کا دن منانے کا مقصد ’سائنس اور طب کے شعبوں میں تلوار نگلنے والوں کے تعاون کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہے۔‘