ٹنڈولکر کھلاڑی نہیں، سیاست دان کی حیثیت سے کشمیر آئے

345486-1265337142.jpeg

برصغیر کی تقریباً ڈیڑھ ارب آبادی میں ڈیڑھ کروڑ کشمیری شامل ہیں جو کرکٹ کے شیدائی ہی نہیں بلکہ خود بھی اسے کھیلتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے انہیں قومی یا عالمی کرکٹ میں کوئی خاص جگہ نہیں ملی۔کرکٹ کہیں بھی کھیلی جا رہی ہو کشمیری اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے، پھر جب کوئی کرکٹ کھلاڑی وادیِ کشمیر تشریف لائے تو وہ مہمان نوازی کی مثال قائم کرتے ہیں۔

اس کا ثبوت آپ کو حال ہی میں ماسٹر بلے باز سچن ٹنڈولکر کے وادی کے دورے کے دوران مل گیا ہو گا۔ گو کہ یہ ان کا نجی دورہ تھا مگر اس دوران انہوں نے مختلف مقامات، اداروں اور بعض افراد سے ملاقاتیں کر کے اسے نیم سرکاری دورہ بنا دیا۔ٹنڈولکر کا خیر مقدم کرنے کے لیے جہاں ہر مقام پر سرکاری مشینری پیش پیش تھی، وہیں بعض کشمیریوں کو بھی ان سے بات چیت کرنے کا موقع مل گیا، بھلے ہی وہ سخت سکیورٹی کے حصار میں کیوں نہ تھے۔

گلمرگ کے برف پوش پہاڑوں پر سچن ٹنڈولکر نے کرکٹ کے کچھ شاٹ مارے اور دنیا سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ ’جنت میں کھیل رہے ہیں۔‘گلمرگ میں موجود ریاض لون کہتے ہیں کہ ’کاش وہ بغیر سکیورٹی کے ہوتے تو ان سے واقعی بات چیت کرنے کا کچھ اور ہی لطف ہوتا۔‘ریاض خود کرکٹ کھیلتے ہیں اور ایک زمانے میں سچن کے خاص شیدائی رہے ہیں۔ آج کل وہ وراٹ کوہلی اور شاہد آفریدی کو کرکٹ میں اپنا رول ماڈل تصور کرتے ہیں۔

میں نے پوچھا کہ ’اگر کوہلی یا آفریدی وادی آئیں تو کس طرح کا ردعمل سامنے آئے گا؟‘لمبی خاموشی کے بعد وہ ہنستے ہوئے کہنے لگے: ’وراٹ کو دیکھنے کے لیے بھیڑ ضرور لگ جائے گی اور ایک بہترین کھلاڑی کے طور پر ان کا مان رکھنا ضروری ہے مگر لالا، لالا کو دیکھنے کے لیے عوام کا سمندر امڈ کر آئے گا اور شاید سرکار کو کرفیو نافذ کرنا پڑے گا!کچھ دیر ٹھہر کر وہ پھر بولے کہ ’اگر ایسا دن کبھی آیا کہ پاکستان کے کھلاڑیوں کو کشمیر آنے کی اجازت دی گئی تو بھگدڑ کی وجہ سے شاید سینکڑوں کی جان بھی چلی جائے گی، پاکستان سے ہمارے لاکھ اختلافات مگر اس کے کھلاڑی ہمارے دل میں رہتے ہیں، بالخصوص عمران خان، لالہ آفریدی اور بابر اعظم۔‘

یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض کشمیری بیرونی ملکوں میں پاکستان کے کرکٹ کھلاڑیوں کو دیکھنے کے لیے لاکھوں روپے صرف کرتے ہیں لیکن وادی میں ایک بڑی تعداد انڈیا کے کھلاڑیوں کی شیدائی بھی ہے اور ان سے جڑنے کے تمام حربے استعمال کرتی ہے۔کشمیر کے دورے کے دوران سچن نے ایکس پر کئی بار اپنے تاثرات لکھے اور اس کی خوبصورتی سے لے کر اس کی موسیقی کو اپنے شیدائیوں تک پہنچایا۔

بسکو سکول کے ایک طالب علم احمر کہتے ہیں: ’ٹنڈولکر سے ملنے کی میری بڑی خواہش تھی مگر وہ ہم جیسے عام لوگوں سے نہیں ملے۔ سڑک کے بیچ میں بیٹ ہاتھ میں لینے سے کیا فرق پڑتا ہے، انہیں کشمیر کی کسی ٹیم کے ساتھ چند منٹ کے لیے کھیلنا چاہیے تھا جس سے ہم جیسے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی۔‘تاہم سچن ٹنڈولکر نے سری نگر میں پیرا کرکٹ ٹیم کے کپتان عامر حسین لون سے ملاقات کی اور ان کو حوصلہ دیا۔ اس کے علاوہ سچن نے اوڑی سیکٹر میں انڈین فوجیوں کے ساتھ بھی کچھ وقت گزارا۔

کشمیر کرکٹ کے بلے بنانے کے لیے منفرد حثیت رکھتا ہے، مگر چند روز پہلے اس صنعت سے وابستہ تاجر انجمن نے سونی پکچرز نیٹ ورک اور ترمبو سپورٹس پرائیویٹ لمیٹڈ پر الزام لگایا کہ اس نے ایک پروگرام کے دوران ترمبوز کو اس صنعت کا واحد تاجر قرار دے کر دوسرے سینکڑوں تاجروں کے لیے روزگار کے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ہمیں امید تھی کہ سچن ٹنڈولکر اس صنعت سے وابستہ تاجر برادری سے ملاقات کر کے ان کے مسائل کو اجاگر کریں گے، مگر یہ ان کا نجی دورہ تھا جس میں لائن آف کنٹرول پر جا کر امن سیتو پل کے سامنے اکھنڈ بھارت کا نقشہ دکھانا ترجیحات میں شامل تھا۔تاجر برادری نے سونی والوں کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کر کے سو کروڑ ہرجانہ ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

سچن نے قومی شاہراہ پر واقع بلے بنانے والی ایک دکان پر رک کر ان کے مسائل جاننے کی کوشش کی اور کہا کہ ’جو پہلا بیٹ مجھے بہن کی طرف سے ملا تھا، وہ کشمیر ہی سے آیا تھا۔‘اننت ناگ کے بلے بنانے والے ایک تاجر غلام رسول کہتے ہیں کہ ’ہمیں امید تھی کہ سچن ٹنڈولکر اس صنعت سے وابستہ تاجر برادری سے ملاقات کر کے ان کے مسائل کو اجاگر کریں گے، مگر یہ ان کا نجی دورہ تھا جس میں لائن آف کنٹرول پر جا کر امن سیتو پل کے سامنے اکھنڈ بھارت کا نقشہ دکھانا ترجیحات میں شامل تھا۔‘

جموں و کشمیر میں کرکٹ اور دوسرے کھیلوں میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد حصہ لے رہی ہے، بعض نے قومی اور عالمی مقابلوں میں اعزازات بھی حاصل کیے، البتہ نوجوانوں کا مطالبہ ہے کہ آئی پی ایل کی طرز پر کشمیر کا اپنا ’کے پی ایل‘ ہونا چاہیے جس میں انہیں اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع مل سکتا ہے۔

سچن ٹنڈولکر کی میزبانی کے لیے اگرچہ پورا کشمیر تیار تھا، مگر انہوں نے اپنا زیادہ وقت سیاست دانوں کی طرح گزارا۔بقول ایک صحافی: ’اگر وہ صرف ایک کرکٹر کی حثیت سے آتے تو لاکھوں کی تعداد میں شائقین ان کے اردگرد جمع ہوجاتے مگر جب فیملی ہولی ڈے میں فوجی چھاؤنی اور امن سیتو کے دورے کو ترجیح دی گئی تو کشمیریوں نے ان کے اور ایک سیاست دان کے دورے میں کوئی فرق محسوس نہیں کیا، جو اکثر کشمیر آکر ہندوتوا پالیسی مسلط کرنے کا اپنا ارادہ ظاہر کرتے ہیں، پھر جب وزیراعظم بھی ان کے دورے پر اظہار رائے کرتے ہیں تو عوام کی ایسی سوچ کو تقویت ملتی ہے۔

 

تجزیہ نگار :- نعیمہ احمد مہجور

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے