اب جنگ بندی ہونی چاہیے، مستقبل کی جانب بڑھنا چاہیے: گوہر خان

2590241-barristergohar-1705139673-256-640x480.jpg

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما بیرسٹر گوہر خان نے عام انتخابات 2024 سے قبل اپنی جماعت کی سیاسی صورت حال کے حوالے سے کہا ہے کہ اب جنگ بندی (سیز فائر) ہونی چاہیے اور مستقبل کی جانب بڑھنا چاہیے۔

اپنے خصوصی انٹرویو میں بیرسٹر گوہر خان نے عام انتخابات کے حوالے سے اپنی پارٹی کی حکمت عملی، سیاسی اتحاد اور عدالتی فیصلوں کے حوالے سے کھل کر گفتگو کی۔

گوہر خان نے بلے کا نشان چھن جانے کے بعد پارٹی کی صورت حال سے متعلق کہا کہ پی ٹی آئی ہر نشست پر آزاد الیکشن لڑے گی اور انتخابات کی حد تک کسی جماعت کی اتحادی نہیں بنے گی، تاہم الیکشن کے بعد ’مسئلہ وار اتحاد‘ کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا: ’میں بطور چیئرمین خدمات سر انجام دے رہا ہوں، باقی عہدے جیسے سیکرٹری جنرل اور چاروں صوبائی تنظیمیں اور کور کمیٹی فعال ہیں۔ جماعت کو اسی طریقے سے چلایا جا رہا ہے۔‘

سپریم کورٹ نے 13 فروری 2024 کو پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا، جس میں پارٹی سے ان کا انتخابی نشان ’بلا‘ واپس لے لیا گیا۔

دو دسمبر 2023 کو ہونے والے انٹرا پارٹی انتخابات کے نتیجے میں بیرسٹر گوہر خان بلامقابلہ پی ٹی آئی کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے، تاہم یہ الیکشن کالعدم قرار دینے کے عدالتی فیصلے کے بعد وہ بھی اب پارٹی چئیرمین نہیں رہے

اپنے انٹرویو میں انہوں نے عام انتخابات میں ممکنہ ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے بھی خدشات کا اظہار کیا اور کہا: ’اس کا قوی امکان ہے کیونکہ جب کوئی آزاد انتخاب لڑتا ہے تو اس پر جماعت کے قوانین لاگو نہیں ہوتے۔ اگر ایسی کوئی کوشش کی جائے گی اور اراکین وفاداری دوبارہ تبدیل کریں گے تو اس کا امکان ہے کہ کسی وجہ سے ہی وفاداری تبدیل کریں گے۔‘

الیکشن ایکٹ اور قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے مطابق انتخابی نشان واپس لیے جانے کے بعد کوئی بھی سیاسی جماعت مخصوص نشستوں کی اہل نہیں رہتی۔

گوہر خان نے مزید کہا کہ ہارس ٹریڈنگ کو نامزدگی فارم اور حلف نامے پر دستخط سے روکا جائے گا۔ ’اگر یہ افراد ہمارے ساتھ نہیں چلیں گے تو ایسا کرنے پر ان کے خلاف عوامی جذبات بھی اٹھیں گے۔ یہ انہی کے حمایت کردہ ہوں گے تو سسٹم کی بھی مانیں۔‘

کسی دوسری جماعت سے انتخابی نشان لینے سے متعلق سوال پر پی ٹی آئی رہنما نے جواب دیا کہ ’ہم اس کی کوشش کرتے رہے۔ محدود وقت میں ظاہر ہو گیا تھا کہ شاید بلے کی وجہ سے یہ سب کچھ کر رہے ہیں اور یہ نہ ملے۔ اس خدشے کے پیش نظر مختلف جماعتوں کے ساتھ رابطہ کیا گیا تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ سیاسی جماعتوں سے معاملات ان کی جانب سے ’زیادہ نشستیں مانگنے‘ کی وجہ سے طے نہیں ہوئے۔ ’دوسری جانب کچھ ایسی جماعتیں ہیں جو ہمارے خیال سے ہمارے نظریے کے مطابق چل سکتی تھیں، پہلے ان سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیا گیا اور جن کے ساتھ اب بھی ہمارا اتحاد ہے، جیسے شیرانی گروپ اور مجلس وحدت المسلمین۔‘

اپنی جماعت کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ ’اب سے جنگ بندی (سیز فائر) ہونی چاہیے اور مستقبل کی جانب بڑھنا چاہیے۔ ماضی تو گزر گیا لیکن اب مستقبل کی جانب بڑھنا ہے۔‘

بقول گوہر خان: ’انتخابات کے بعد پی ٹی آئی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطہ کرنا چاہ رہی ہے۔ یہاں سیز فائر کا یہ مطلب ہے کہ دیوار سے تو پہلے ہی لگ چکے تھے، سپریم کورٹ نے فیصلے کے بعد سب کو دیوار میں چن دیا ہے، اب بہت ہو گیا۔‘

انتخابات میں شکست اور اپوزیشن میں آنے کے بعد دیگر جماعتوں سے اتحاد کے سوال پر بیرسٹر گوہر خان نے کہا: ’ہم حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے۔ ہمارا اپنا نظریہ اور منشور ہے، ہم اسی کو فالو کریں گے لیکن اگر ملکی سلامتی، دہشت گردی، قانون کی حکمرانی یا معیشت جیسے موضوعات پر بات کی جاتی ہے تو مسئلہ وار اتحاد کریں گے۔‘

کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے ایک حلقے سے نو، نو امیدوار انتخاب کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، اس حوالے سے سوال پر بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ ’کل تک ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے گا، ہمارے اضافی امیدوار دستبردار ہو جائیں گے، ریٹائر ہو جائیں گے اور وہ ان افراد کی مکمل حمایت کریں گے جنہیں پارٹی نے ٹکٹ دیا ہوگا۔‘

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی بلے کے نشان سے متعلق دیے گئے عدالتی فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کرنے جا رہی ہے۔ ’یہ فیصلہ تین رکنی بینچ کے بجائے پانچ رکنی بینچ کی جانب سے دیا جانا چاہیے تھا۔‘

بقول گوہر خان: ’پی ٹی آئی کو اتنی بڑی سزا دی گئی، جماعت کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ ہم سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے قطعی متفق نہیں ہیں لیکن اس کے پابند ہیں، اس پر عمل کریں گے تاہم ان کی جماعت اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کرنے جا رہی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ انتخابات کے بائیکاٹ سے متعلق معاملہ کبھی زیر غور نہیں آیا اور نہ ہی اس بارے میں پارٹی رہنماؤں نے کوئی تجویز دی۔

سپریم کورٹ سے فیصلہ آنے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سوشل میڈیا پر تنقید کے حوالے سے سوال پر گوہر خان نے کہا کہ ’وہ کسی ایسی چیز کو own نہیں کرتے۔ فرد کی نہیں فیصلے پر تنقید کی جانی چاہیے۔‘

پارٹی کے بانی چیئرمین ’عمران خان کے صدر عارف علوی سے مایوس ہونے‘ سے متعلق ان کی بہن علیمہ خان کے بیان کے حوالے سے سوال پر گوہر خان نے کہا کہ ’انتخابات کی تاریخ نہ دینے اور فعال نہ ہونے پر شاید مایوسی ہو سکتی ہے، تاہم میرے سامنے ایسا کوئی ذکر نہیں ہوا۔‘

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے