عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا، جنوبی افریقہ

224.jpg

عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے حتمی دفاع کے بعد جنوبی افریقہ کے وزیر انصاف نے کہا کہ اسرائیلی حکومت کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے خبر رساں ادارے فارس نیوز کے مطابق جنوبی افریقہ کے وزیر انصاف نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کے بارے میں جنوبی افریقہ کی طرف سے لائی گئی شکایت کو مسترد کرنے میں "شرمناک طور پر” ناکام رہا ہے۔ رونالڈ لامولا نے کہا ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ ہم نے ایک قائل کرنے والی شکایت پیش کی ہے، جس کی تفصیل ہمارے وکلاء نے دی ہے، اور یہ کہ اسرائیل آج بری طرح ناکام ہوا ہے۔ جنوبی افریقہ کے وزیر انصاف نے مزید کہا کہ ہمارے ملک کے وکلاء نے اب عدالت کو قائل کرنے والے حقائق فراہم کیے ہیں اور قانون ہماری ساتھ ہے۔
جنوبی افریقہ کے اس اہلکار کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا، جب اسرائیل کا نمائندہ عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کی شکایت کی دوسری سماعت میں پیش ہوا اور اس نے جنوبی افریقہ کی شکایت کو مسترد کرنے کے لئے اپنے دلائل پیش کئے۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف غزہ میں نسل کشی کی شکایت کی پہلی سماعت گذشتہ روز ہوئی۔ یہ سیشن جمعرات کو 09:00 GMT پر شروع ہوا۔ (تہران کے وقت کے مطابق 12:30) جنوبی افریقہ کے نمائندے نے اس عدالت میں اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت غزہ کی پٹی کے فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ پالیسیاں نافذ کرتی ہے۔ جنوبی افریقہ کے نمائندے نے کہا ہے کہ 1948ء کے بعد سے، اسرائیل نے منظم طریقے سے فلسطینی عوام کو بے گھر اور منتشر کیا ہے اور جان بوجھ کر انہیں ان کے بین الاقوامی حق خودارادیت سے محروم رکھا ہے۔
ہم خاص طور پر اسرائیل کے امتیازی قوانین اور پالیسیوں کے بارے میں فکر مند ہیں، جو فلسطینی عوام کو آپارتھائیڈ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چند ہفتے قبل، جنوبی افریقہ نے دی ہیگ میں قائم اس عدالت میں ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں غزہ جنگ میں نسل کشی کے ارتکاب کے حوالے سے اسرائیل پر الزام کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 84 صفحات پر مشتمل اس شکایت میں جنوبی افریقہ نے کہا ہے کہ اسرائیل نے نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا کے کنونشن کی شقوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیل اور جنوبی افریقہ دونوں اس کنونشن کے دستخط کنندگان میں سے ہیں، جو تنازعات کو نمٹانے کے لیے اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین قانونی اتھارٹی کے طور پر بین الاقوامی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرتے ہیں۔
عالمی عدالت انصاف کا اجلاس آج بھی جاری رہا اور آج کے اجلاس میں صیہونی حکومت کے نمائندے کی جانب سے دفاع کی سماعت ہوئی۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے والے تمام فریقوں نے نسل کشی کا ارتکاب نہ کرنے، نیز یہ کہ دیگر فریقوں کی جانب سے اس کے ارتکاب کی صورت میں اسکی روک تھام اور انہیں سزا دلوانے کا عہد کیا ہے۔ اس معاہدے میں نسل کشی کی تعریف "کسی قومی، نسلی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کیے جانے والے اعمال” کے طور پر کی گئی ہے۔ جنوبی افریقہ کے نمائندے نے زور دیا کہ نسل کشی کا "کبھی پہلے سے اعلان نہیں کیا جاتا۔” انہوں نے کہا کہ اب "13 ہفتوں کے شواہد عالمی عدالت انصاف کے پاس موجود ہیں۔” جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے نسل کشی کی ہے۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غزہ کی صورتحال عالمی عدالت کی مداخلت کی متقاضی ہے، انہوں نے بین الاقوامی عدالت انصاف سے روہنگیا کیس کی طرح صیہونی حکومت کے خلاف اقدامات کرنے کی درخواست کی۔ جنوبی افریقہ نے ان تمام ممالک، جو غزہ میں اسرائیل کے آپریشن پر تنقید کرتے ہیں اور فلسطینیوں کے قتل کے لیے اس حکومت کو جوابدہ ٹھہراتے ہیں، حمایت کی ہے۔ صیہونی حکومت کی وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ نسل کشی کے حوالے سے جنوبی افریقہ کے بیان کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہے اور یہ عدالت سے سوء استفادے کی کوشش ہے اور جنوبی افریقہ پر "دہشت گردوں” کے ساتھ تعاون کا الزام لگایا ہے۔
ترکی، ملائیشیا، وینزویلا، برازیل اور اسلامی جمہوریہ ایران سمیت متعدد ممالک نے صیہونی حکومت کے خلاف جنوبی افریقہ کی شکایت کی حمایت کی ہے۔ جنوبی افریقہ کی قانونی ٹیم نے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت انسانی حقوق کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور کہا ہے کہ غزہ کی پٹی محصور جیل کی شکل اختیار کرچکی ہے، جہاں نسل کشی ہو رہی ہے۔ اسرائیل جنگجوؤں اور عام شہریوں میں فرق نہیں کرتا اور جو کچھ وہ کرتا ہے، وہ حقیقی معنوں میں نسل کشی ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے