کیا بنگلہ دیش میں ہونے والے عام انتخابات ’ون وومین شو‘ بن گئے ہیں؟

82.jpg

بنگلہ دیش میں 7 جنوری کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں جن کے نتائج پہلے ہی ناگزیر دکھائی دینے لگے ہیں۔
حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں کی جانب سے انتخابات کا بائیکاٹ اور ان کے کئی رہنماؤں کو جیل بھیجنے کے بعد حکمراں جماعت عوامی لیگ مسلسل چوتھی بار پارلیمانی مدت کے لیے دوبارہ انتخاب لڑنے اور ان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے تیاری مکمل کیے ہوئے ہے۔
حزب اختلاف کی ان جماعتوں میں سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اس کے اتحادیوں کا یہ کہنا ہے کہ انھیں اس بات کا یقین ہے کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات نہیں ہونے دیں گی۔
بی این پی کی جانب سے وزیر اعظم شیخ حسینہ سے استعفیٰ دینے اور غیر جانبدار عبوری حکومت کے تحت انتخابات کروانے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا لیکن انھوں نے اس مطالبے کو مسترد کردیا۔
بی این پی کے سینیئر رہنما عبدالمعین خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بنگلہ دیش میں جمہوریت مر چکی ہے۔ ہم جنوری میں جو کچھ دیکھنے جا رہے ہیں وہ جعلی انتخابات ہیں۔‘
انھوں نے آنے والے دنوں میں مُلک میں ہونے والے انتخابات سے متعلط اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مُلک کی موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے حکومت چلانے کا انداز گزشتہ برسوں کے دوران تیزی سے آمرانہ سوچ کی جانب جاتے دیکھائی دے رہا ہے۔
ناقدین سوال کرتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری ان کی انتظامیہ کو جوابدہ بنانے کے لیے مزید اقدامات کیوں نہیں کر رہی تاہم شیخ حسینہ کی حکومت ان الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے کہ اُن کا کام کرنے کا انداز غیر جمہوری ہے۔
بنگلہ دیش کے موجودہ وزیرِ قانون انیس الحق نے بتایا کہ ’انتخابات کا تعین عوام کی شرکت سے ہوتا ہے۔ ان انتخابات میں بی این پی کے علاوہ کئی اور سیاسی جماعتیں بھی حصہ لے رہی ہیں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے