.. کیونکہ گلوبلائزیشن کے بارے ہماری قیادت کے دو (غلط) تصور تھے۔
پہلا اس بات کا تصور تھا کہ ہم "محصولات کی پیداوار” کو، ان کی "ڈیزائننگ” سے علیحدہ کر سکتے ہیں!
گلوبلائزیشن کے پیچھے بنیادی خیال یہ تھا کہ امیر ممالک "سلسلۂ اقدار” میں اوپر چلتے جائیں گے جبکہ غریب ممالک سادہ (اور سستی) سی چیزیں بنائیں گے!!
جب آپ آئی فون کا ڈبہ کھولتے تھے تو اس میں لکھا ہوتا تھا "کوپرٹینو، کیلیفورنیا میں ڈیزائن شدہ” البتہ ضمنی طور پر اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ "شنںژن” یا کسی اور مقام پر بنایا گیا ہے!
اس دوران، جی ہاں! ممکن ہے کہ کچھ لوگ پیداواری میدان میں اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں لیکن وہ ڈیزائننگ سیکھ سکتے تھے یا رائج اصطلاح کے مطابق "کوڈ” کرنا سیکھ سکتے تھے!
لیکن اس تصور کی غلطی یوں واضح ہوتی ہے کہ وہ جغرافیے کہ جو پیداوار دے رہے ہیں، چیزوں کی ڈیزائننگ میں بھی مہارت پیدا کر لیتے ہیں!
جیسا کہ آپ سبھی اچھی طرح سے جانتے ہیں، نیٹورک کے بھی اپنے اثرات ہوتے ہیں۔ وہ کمپنیاں کہ جو محصولات کی ڈیزائننگ انجام دیتی ہیں، انہیں مینیوفیکچر کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ تعاون بھی کرتی ہیں!
وہ فکری ملکیت، اعلی روشیں اور حتی بعض اوقات اپنے اصلی ملازمین کا بھی تبادلہ کرتی ہیں!
اب ہم تو یہ سوچتے تھے کہ دوسری اقوام، سلسلۂ اقدار میں ہمیشہ ہم سے پیچھے ہی رہیں گی!
لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ جس طرح سے وہ سلسلۂ اقدار کے نچلے مراحل میں بہتر ہوئی ہیں، اسی طرح سے وہ اعلی اقدار کے مراحل میں بھی ہمارے قریب پہنچ چکی ہیں اور یوں آپ کو دونوں اطراف سے دَبا دیا گیا ہے!
یہ گلوبلائزیشن کا پہلا تصور تھا.. اور میرا خیال ہے کہ دوسرا (غلط) تصور یہ ہے کہ سستی لیبر، بنیادی طور پر ایک بیساکھی ہے!
ایک ایسی بیساکھی کہ جو "ایجاد” کے رستے میں رکاوٹ ہے۔ حتی میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک نشہ ہے جس کی بہت سی امریکی کمپنیوں کو عادت پڑ چکی ہے!
اب جبکہ آپ زیادہ سستی محصولات بنا سکتے ہیں، تو اس کام کی انجام دہی "ایجاد” کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے!
اور، چاہے ہم فیکٹریوں کو سستی لیبر کے ذریعے معیشت فراہم کرتے تھے یا اپنے امیگریشن سسٹم کے ذریعے سستی لیبر درآمد کرتے تھے.. یہ سستی لیبر، مغربی معیشت کے لئے ایک نشہ بن چکی ہے!
اور میں کہتا ہوں کہ اگر آپ کینیڈا سے برطانیہ تک تقریبا کسی بھی ملک کو دیکھ لیں کہ جس نے بہت زیادہ سستی لیبر درآمد کر رکھی ہے، تو آپ مشاہدہ کریں گے کہ وہاں پیداوار جمود کا شکار ہے.. اور میرا نہیں خیال کہ یہ سب کچھ مکمل طور پر اتفاقی ہو گا میرا خیال ہے کہ ان کے درمیان رابطہ بہت سیدھا سادہ ہے!
پس میک ڈونلڈ میں زیادہ تنخواہوں کا مطلب زیادہ کاؤنٹر ہیں۔ کم از کم تنخواہوں کے بارے آپ کا جو بھی نظریہ ہو، میں یہاں اس پر بات نہیں کروں گا
سستی لیبر کی غیر موجودگی میں کمپنی کی جانب سے نئے رستوں (ایجاد) کی تلاش ایک اچھی چیز ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ میں سے اکثر لوگ، سستی اور مزید سستی لیبر کے حصول کے لئے پریشان نہیں ہیں
بلکہ آپ ایجاد کے بارے پریشان ہیں، نئی چیزیں بنانے کے بارے اور ٹیکنالوجی کے اس قدیمی فارمولے کے بارے پریشان ہیں کہ جس کے ذریعے آپ "کم وسائل میں زیادہ کام” انجام دے سکتے ہیں
آپ میں سے ہر ایک، روزانہ یہی کوشش کرتا ہے کہ کم وسائل میں زیادہ کام انجام دے سکے!
لہذا میں اپنے "ٹیکنالوجی کے بارے خوش فہم” اور "پاپولسٹ” (متوسط طبقے کا خیال رکھنے والے) دونوں دوستوں سے درخواست کروں گا کہ وہ "گلوبلائزیشن کے نظریئے کی شکست” کو ایجادات کی شکست نہ سمجھیں
میں کہوں گا کہ سستی لیبر سے متعلق گلوبلائزیشن کی "بھوک” درحقیقت ایک مسئلہ ہے.. خاص طور پر اس لئے کہ یہ ایجادات کے لئے بُریکام کرنے والے ہمارے لوگ، ہمارے عوامی طبقات کا خیال رکھنے والے (پاپولس) اور ہمارے ایجادات کرنے والے دونوں آج یہاں جمع ہیں اور ان دونوں کا دشمن واحد ہے، اور میرے خیال میں راہ حل "امریکی ایجادات” ہیں!!