آئیے آپ سے شروع کرتے ہیں
کیا حزب اللہ کو اپنے ہتھیار حوالہ کر دینے چاہیئیں؟
میرا خیال ہے کہ یہ سوال کہ کیا حزب اللہ کو ہتھیار ڈال دینے چاہیئیں،
ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جو مکمل طور پر لبنانی عوام کے ساتھ متعلق ہے
مجھے معلوم ہے کہ اس کے بارے لبنان میں اختلاف موجود ہے
لہذا مجھے باہر سے اپنی ذاتی رائے مسلط کرنے کا حق حاصل نہیں
یہ حقیقتا ایک ایسا موضوع ہے کہ جس کے بارے انہیں خود فیصلہ کرنا ہے
لیکن میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ حالات میں خطے کے عوامل،
خاص طور پر اسرائیل کے جارحانہ رویے نے؛
تخفیف اسلحہ کے بارے استدلال کو دشوار بنا دیا ہے
اسرائیل پورے خطے میں
کسی شیطانی کھلاڑی کی طرح سے عمل کر رہا ہے
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ غزہ میں نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے،
مغربی کنارے میں غیر قانونی یہودی بستیوں کو مزید توسیع رہا ہے
اور حتی کہ ہمسائے میں واقع شام میں بھی..
کہ جہاں حزب اللہ کی حامی حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے اور
ایک ایسی نئی حکومت تشکیل پا رہی ہے کہ جو الٹے پیروں جھکتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کی کوشش میں ہے
لیکن اسرائیل نے نہ صرف
شام میں اپنے قبضے میں مزید توسیع کے ساتھ جواب دیا ہے
بلکہ وہاں منظم طور پر بمباریوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے
قواعد و ضوابط سے عاری رویے کی نمائش بھی کی ہے
وہ کام جو اسرائیل نے لبنان میں جنگ بندی کے بعد سے انجام دیا ہے؛
یہ ہے کہ اس نے جنگ بندی کے بعد سے ہزاروں حملے کئے ہیں!!
جن کے دوران اس نے کم از کم 127 لبنانی شہریوں کو قتل کیا ہے!
لہذا، جب آپ کے سامنے ایک ایسا کھلاڑی موجود ہے کہ جو
اس طرح سے مکمل طور پر لا قانونیت کے ساتھ عمل کر رہا ہے..
تو یہ تعجب کی بات نہیں کہ لبنانی عوام کہیں کہ
ہمیں اپنے دفاع کے قابل ہونا چاہیئے!
بنابرایں، اسرائیل کا یہ رویہ؛ ہتھیار ڈالنے کے بارے بات کو، وہ بھی خطے کے ایک ایسے غنڈے کے مقابلے میں کہ جو اسرائیل کے جیسا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے؛
انتہائی دشوار بنا دیتا ہے!!
معلوم نہیں آپ نے نوٹس لکھے ہیں یا نہیں..
کیا کوئی ایسی بات ہے کہ جو آپ اضافہ کرنا یا عمر کو جواب دینا چاہیں؟
ساریت زھاوی
اسرائیلی نمائندہ
بہت زیادہ..
پہلی تو یہ کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مرتکب نہیں ہو رہا!
یہ بیان میرے رد عمل سے خالی نہیں رہے گا
اسرائیل ایک بے رحم دہشتگرد تنظیم کے ساتھ جنگ لڑ رہا ہے
جس نے سال 2006 سے غزہ کا کنٹرول سنبھال رکھا ہے
جو اپنے لوگوں کو قتل کرتی ہے
اور ان کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے!!
جب ہم نسل کشی کے بارے بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ
میں کیا کہتا ہوں اور وہ کیا کہتی ہے کہ نسل کشی ہوئی ہے یا نہیں!
بلکہ وہ چیز کہ جسے عوام کو دیکھنا چاہیئے یہ ہے کہ دنیا بھر کے انسانی حقوق کے تمام ادارے؛ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور حتی کہ اسرائیلی انسانی حقوق کا ادارہ بتسلیم بھی کہہ رہا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے
اس بات پر نسل کشی کے محققین کا روز افزوں اتفاق نظر ہے کہ جس میں نسل کشی کے اسرائیلی محققین بھی شامل ہیں
کہ جو برملاء کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے!
"انسانی ڈھال” کے بارے دعوی بھی اسی طرح سے ہے؛
نہ صرف انسانی حقوق کے بڑے ادارے یہ کہہ رہے ہیں کہ
اسرائیل انسانوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے
بلکہ بذات خود اسرائیلی فوجی بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ
وہ غزہ میں فلسطینی شہریوں کو "انسانی ڈھال” کے طور پر استعمال کرتے ہیں
اور اتفاق سے یہ انکشافات خود اسرائیلی مطبوعات میں سامنے آئے ہیں
جنہیں اسرائیلی ھآرٹز اور دوسرے میڈیا میں دستاویزی شکل بھی دی گئی
لہذا اس وقت ہمارا سامنا ایک ایسی شخص سے ہے کہ
جس کا کام ہی اپنی حکومت کے انسانیت سوز جرائم کو چھپانا ہے
سچی بات تو یہ ہے کہ خطے بھر میں سب سے بڑی دہشتگرد تنظیم
اسرائیلی رژیم اور اس کی مجرم فوج ہے
کہ جس کا رویہ داعش سے کسی طور مختلف نہیں
بلکہ یہ زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس کے پاس جوہری ھتھیار
اور امریکہ کے اسلحے و دولت کی لا محدود رسد ہے!!
لہذا اگر تم اس صورتحال کا دفاع کرنا چاہتی ہو..
تو کرتی رہو..!!