اسرائیل، ایرانی میزائلوں کو روکنے میں ناکام کیوں؟

 

 

اسرائیلی اداراتی مرکز تل ابیب ہو یا شمال میں واقع صہیونی اقتصادی مرکز حیفا،

دونوں سے ہی تباہی کے بیمثال مناظر سامنے آ رہے ہیں

پس،سوال یہ ہے کہ

ایرانی ڈرون طیارے و میزائل اپنے اہداف تک کیسے پہنچ جاتے ہیں

ایران نے اسرائیل کیخلاف اپنے حملوں کو

مختلف اسلحہ جاتی پرتوں پر ڈیزائن کر رکھا ہے

ان حملوں کا آغاز شاہد نامی ڈرون طیاروں کے ساتھ ہوتا ہے

جو 185 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کے ساتھ تقریبا 2500 کلومیٹر تک پہنچ سکتے ہیں

اور 30 تا 50 کلو وزن کا حامل دھماکہ خیز مواد لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں

یہ ڈرون طیارے حملے کی پہلی لہر میں فائر کئے جاتے ہیں

پھر ایران ساختہ کروز میزائل جن میں شہاب اور دوسری قسمیں شامل ہیں اور جو کم بلندی پر پرواز کرنے اور مینیوور کی صلاحیت رکھتے ہیں، کو فائر کیا جاتا ہے

اور یہی چیز ان میزائلوں کے

ایئر ڈیفنس سسٹمز کی جانب سے روکے جانے کو مشکل بناتی ہے

اور کبھی ان دو لہروں کے ساتھ ہی ہائپر سونک میزائل بھی فائر کر دیئے جاتے ہیں

جبکہ یہ میزائل 6 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ کی رفتار تک پہنچنے

اور ایئر ڈیفنس سسٹمز کو چکمہ دینے کی اعلی صلاحیت بھی رکھتے ہیں

ان اسلحہ جات کو ان کی رفتار کے حساب سے مناسب وقفوں سے فائر کیا جاتا ہے

پہلے ڈرون طیارے اور پھر میزائل فائر کئے جاتے ہیں

تاکہ سب تقریبا ایک ہی وقت میں مطلوبہ علاقے میں پہنچیں

دوسری طرف اسرائیل حملے کی ان لہروں سے مقابلے کے لیے تیار ہوتا ہے

اسرائیلی ایئر ڈیفنس بھی متعدد پرتوں پر مشتمل ہے

جو کم رینج کے حامل آئرن ڈوم سے شروع ہوتا ہے

پھر درمیانی رینج کا حامل فلاخن داؤد اور امریکی تھرمل سسٹم تھاڈ آتا ہے

اور پھر حیتس میزائل، خاص طور پر اس کا جدید ترین ورژن حیتس-3

کہ جو ہائپرسونک میزائلوں کو روکنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے

ہائپر سونک میزائل کو لانچر سے قائمہ زاویے پر فائر کیا جاتا ہے

جو زمین کی بیرونی فضا میں جا پہنچتا ہے

جہاں سے زمینی فضا میں واپسی پر

اس کا وار ہیڈ میزائل سے علیحدہ ہو کر اپنے ہدف کی جانب بڑھنے لگتا ہے

یہ وار ہیڈ اپنا راستہ بدلنے اور ایئر ڈیفنس سسٹمز کو چکمہ دینے کے لئے

مینیور کی اعلی صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے

بیلسٹک میزائل کے مقابلے میں حیتس سسٹم قرار پاتا ہے کہ جو میزائل لانچر اور ٹارگٹ یا حملہ آور میزائل کو ٹریک کرنے والے ریڈار پر مشتمل ہوتا ہے

جو فائر ہونے کے بعد ریڈار سسٹمز کی لائیو نیویگیشن کے ساتھ عمل کرتا ہے

تاکہ اپنے رستے کو بدلتے ہوئے ہدف تک پہنچ سکے

اس امر کی وقوع پذیری کے لئے انتہائی صحیح اعداد و شمار کی ضرورت ہوتی ہے

جس کے بغیر ٹریکنگ ناکام ہو جاتی ہے اور حملہ آور میزائل اپنے ہدف پر جا گرتا ہے

اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ دوسرے ڈیفنس سسٹمز ڈرون طیاروں

اور نان بیلسٹک میزائلوں کے ساتھ مقابلے میں مصروف ہوتے ہیں

پہلا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہی وہ ممکنہ سنیریو ہے کہ جس کے باعث

اسرائیل نے براہ راست ضربیں کھانے کا تجربہ کیا ہے

جیسا کہ بات یام کہ جس نے زیادہ شدید و براہ راست ضربیں کھائیں

اور وہاں متعدد (غاصب صیہونی) مارے بھی گئے جبکہ قبل ازیں ریشون لتسیون!

ان علاقوں میں پھیلی وسیع تباہی، براہ راست اور متعدد ضربوں کا نتیجہ ہے

یہ اسرائیل کا اقتصادی مرکز

اور ایشیا و یورپ کی جانب اس کا اہم ترین دروازہ "حیفا” ہے

کہ جسے ایرانی میزائلوں کی جانب سے متعدد براہ راست ضربیں سہنی پڑی ہیں

2 views

You may also like

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے