اب ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے میں دیر ہو چکی ہے، اسرائیلی ماہرین

ہم اس وقت،ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے

اسرائیل میں خطرناک ترین وقت گزار رہے ہیں!

قوی ایران، طاقتور ہے

اور مزید طاقتور ہوتا جائے گا!

اس حکومت کے ہاتھوں میں جوہری ہتھیار؛ انتہائی انتہائی خطرناک ہیں!!

اسرائیل میں ایک مسئلے پر مکمل اتفاق نظر موجود ہے:
اور وہ یہ کہ ایران اس وقت جوہری ہتھیاروں کے حصول کے سب سے زیادہ قریب پہنچ چکا  ہے!
ایران جب بھی "فیصلہ کر لے گا”
(جوہری ہتھیاروں کے حصول میں) اسے صرف "2 ہفتوں” کا کم وقت لگے گا!

ایرانیوں نے ابھی تک "جوہری بم” بنانے کا فیصلہ نہیں کیا!

لیکن اندازہ یہ ہے کہ

ایران جس لمحے چاہے گا یہ کام کر گزرے گا

اسے صرف دو یا تین ہفتوں کی ضرورت ہے
تاکہ وہ ایٹم بنانے کے لئے ضروری یورینیم کی مقدار تک پہنچ سکے!

ایران ایک جوہری ملک بننے کی دہلیز پر ہے،

اس بات میں کوئی شک نہیں!

مسئلہ صرف "سیاسی فیصلہ اٹھانے” اور "کچھ ہی میہنوں کے کم وقت” کا ہے

کہ جس کے دوران وہ جوہری بم بنا سکے!

اگر آیت اللہ حکومت کے ہاتھ میں جوہری ہتھیار بھی آ جائے

تو پھر ایک ایسا خطرہ لاحق ہو جائے گا کہ جس کی اسرائیل کبھی تاب نہیں لا سکتا!

اب ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ وہ بہترین رستہ کہ جو اس خطرے کو روکنے کے لئے اسرائیل  کی جانب سے اختیار کیا جا سکتا ہے، کیا ہے؟

اور ظاہرا، اس سوال کا انتہائی جلد جواب دیا جانا چاہیئے!

ایرانی؛ لبنان اور شام میں "سخت دھچکے” برداشت کرنے کے بعد
ممکن ہے کہ علی الاعلان یہ کہہ دیں
کہ ہمارے پاس "جوہری ہتھیاروں” کی جانب جانے کے علاوہ کوئی دوسرا رستہ نہیں بچا!

آجکل اسرائیل میں، موجودہ موقع سے فائدہ اٹھانے پر مبنی بلند ہونے والی آوازیں زیادہ ہو چکی ہیں

جن کا کہنا ہے کہ ایران کے ہاتھ بندھ چکے ہیں اور وہ نسبتا کمزور ہو چکا ہے،

لہذا ہمیں اس وقت ایرانی جوہری تنصیبات کے خلاف حملے انجام دے دینے چاہیئیں!

لیکن اس سے ایک لمحہ قبل کہ ہمارے لڑاکا طیارے پرواز کرنے لگیں، ہمیں یہ پوچھنا چاہیئے کہ:
ایسے کسی بھی حملے سے ہمیں کیا کامیابی ملے گی؟

کیا اسرائیلی اکیلے ہی ایسا کام انجام دے سکتا ہے؟

کیا اصلا ایرانی جوہری پروگرام کو تباہ کیا جا سکتا ہے؟
اور پھر اس "بے مثال” اقدام کے نتائج کیا ہوں گے؟

ایران کا جوہری پروگرام صرف ہمیں ہی لاحق خطرہ نہیں،

بلکہ وہ پوری دنیا کے لئے بھی خطر ہے

ریزرو بریگیڈیئر پروفیسر یتزاک بن اسرائیل گذشتہ 40 سالوں سے ایرانی جوہری مسئلے کے ساتھ نپٹ رہا ہے
فضائیہ کے انٹیلیجنس تحقیقات کے شعبے کی سربراہی سے لے کر
وزارت سلامتی کے وار فیئر ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی سربراہی تک۔۔

میں اولمرٹ کی صدارت عظمی کے زمانے میں بھی اسے کہا تھا کہ

ہمیں ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کر دینا چاہیئے!

اس لئے کہ وہ کہیں ایسے مرحلے تک نہ پہنچ جائے کہ
جہاں سب کچھ صرف انہی کے فیصلے پر منحصر ہو!

آج، وہ ایسے کسی بھی حملے کا سب سے بڑا مخالف ہے!

میرا خیال ہے کہ آج، بہت دیر ہو چکی ہے!

نئے سرے سے جوہری تنصیبات کو بنانا اور صفر سے کام شروع کرنا،

ایک ایسا کام ہے کہ جسے بہت سے سالوں تک طویل وقت اور بہت زیادہ کوشش درکار ہوتی ہے

بم بنانے کے لئے بہت زیادہ پرزوں کی ضرورت ہوئی، خاص طور پر انشقاقی مواد اور چاشنی
جبکہ اس بات کو بہت زیادہ وقت گزر چکا ہے کہ جب سے ایرانیوں نے یہ سب کچھ تیار کر رکھا ہے
یہ سب کچھ ایران میں مختلف مقامات پر مخفی رکھا گیا ہے اور اگر ہم اٹھیں اور پیداواری تنصیبات کو منہدم کر دیں تو یہ تو ممکن ہے کہ یہ کام مستقبل میں بننے والے دوسرے بموں پر اثر انداز ہو گا
لیکن ان کی آج کی صلاحیتوں پر، بالکل بھی نہیں!
– لیکن وہ یورینیم کو کیسے 60 فیصد تک افزودہ کر سکتے ہیں؟
– پھر وہ کیسے اس یورینیم کو 90 فیصد افزودگی تک پہنچا کر بم بنا سکتے ہیں
جب ہم ان تنصیبات کو ہی تباہ کر دیں کہ جس میں وہ یورینیم کی افزودگی انجام دیتے ہیں؟

وہ تنصیبات کہ جن میں وہ افزودگی انجام دیتے ہیں، ہزاروں سنٹریفیوجز پر مشتمل ہیں

اس کام کے لئے خصوصی تنصیبات بنائی گئی ہیں

لیکن اس مقصد کے لئے کہ آپ ڈیلٹا بنا سکیں۔۔ آپ اس کام کو ایران کے جنوب میں واقع کسی ایک کمرے میں بھی انجام دے سکتے ہیں، صرف 10 سنٹریفیوج لگا کر!

تمہیں، ایسی تنصیبات کی موجودگی کی سرے سے خبر تک نہ ہو پائے گی
شاید انہوں نے تاحال ایسی تنصیبات بنائی تک نہ ہوں!
ایٹمی بم بنانے کے لئے تین اجزاء کی ضرورت ہے
ارسال کرنے والا آلہ کہ جو میزائل یا ہوائی جہاز ہے،
انشقاقی مواد کہ جو افزودہ یورینیم ہے
اور وارہیڈ کہ جو ایٹمی دھماکہ انجام دیتا ہے
اور اسے میزائل پر نصب کیا جا سکتا ہے!

ان سب چیزوں میں سے؛ میزائل اور جہاز، ایرانیوں کے پاس ہیں

انشقاقی مواد بھی ظاہرا ایران میں بطور کافی موجود ہے

لیکن وارہیڈ ابھی تک ایران میں موجود نہیں

وارہیڈ کی ساخت کے عمل کو "ہتھیار سازی” کہا جاتا ہے

جو کہ "اسلحہ جاتی گروہ” کے نام سے پہچانے جانے والے شعبے میں سینکڑوں انجنیئروں کے ذریعے انجام پاتا ہے

یوں اگر ہم وارہیڈ کی ساخت کو روک پانے میں کامیاب ہو جائیں

تو درحقیقت ہم ایران کی جوہری ہتھیاروں تک رسائی کو روک سکتے ہیں!

انشقاقی مواد کے حصول کے برخلاف کہ جسے خاص سائٹ اور خاص ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے

ہتھیار سازی کم و بیش الیکٹرونک انجنیئرنگ اور دھماکہ خیز مواد کے ساتھ متعلق ہوتی ہے

کسی بھی ملک میں ایسے ملین ہا مقامات موجود ہیں کہ

جن کا دھماکہ خیز اور الیکٹرانک مواد کے ساتھ واسطہ رہتا ہے

صحیح، اب تم ان تمام مقامات پر حملے کرو گے؟

یہ ساری بات (ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ) صرف الفاظ کی حد تک ہی محدود ہے!

180 views

You may also like

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے