یہ ممکن نہيں کہ ایران پابندیوں کے سامنے سر جھکا دے/ مخاصمت کی اصل وجہ خودمختاری ، رہبر انقلاب اسلامی
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بدھ 24 اپریل 2024 کی صبح پورے ملک سے آئے ہوئے ہزاروں مزدروں اور محنت کشوں سے ملاقات کی۔انھوں نے اس موقع پر اپنے خطاب میں محنت کش طبقے کی کوشش، شرافت اور حوصلے کو سراہتے ہوئے ایک مزدور کے گھٹّے پڑے ہوئے ہاتھوں پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بوسے کو کام محنت اور مزدور کے لئے سب سے عظیم خراج تحسین قرار دیا۔
انھوں نے کام اور مزدور کے سلسلے میں اسلام کے نظریے کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ مادی دنیا مزدور کو صرف پیسے بنانے کے ذریعے کی حیثیت سے اہمیت دیتی ہے لیکن اسلام کام کو بنیادی قدر سمجھنے کی وجہ سے مزدور کو بھی ذاتی قدر کا حامل مانتا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بقول خداوند عالم ہر اس شخص کو پسند کرتا ہے جو اپنا کام ٹھوس اور مضبوط طریقے سے انجام دیتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملک کے عہدیداروں کو مخاطب کرتے ہوئے مزدوروں اور ان کے محترم اہل خانہ کو ملک کی آبادی کا تقریبا نصف حصہ بتایا اور زور دے کر کہا کہ اگر مزدور طبقے کی صورتحال بہتر ہو جائے تو ملک کی تقریبا نصف آبادی کی صورتحال بہتر ہو جائے گی اور یہ بہت اہم بات ہے۔
انھوں نے امریکا اور یورپ کی پابندیوں پر توجہ دیے بغیر معاشی مسائل کے بارے میں گفتگو کو ناممکن بتایا اور کہا کہ مغرب والے ایٹمی ہتھیار، انسانی حقوق اور دہشت گردی کی حمایت جیسے امور کو ایران کے خلاف پابندیاں لگانے کی وجہ بتاتے ہيں جو جھوٹ ہے۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے مغرب والوں کے بیانوں میں تضادات اور ان کے جھوٹے بہانوں کی تشریح کرتے ہوئے غزہ کی مثال پیش کی اور کہا کہ ان کی نظر میں غزہ کے لوگ، جن پر بمباری ہو رہی ہے، دہشت گرد ہیں لیکن خبیث، جعلی اور بے رحم صیہونی حکومت جس نے چھے مہینے میں کئي ہزار بچوں سمیت قریب 40 ہزار لوگوں کا قتل عام کیا ہے، دہشت گرد نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایران کے دشمنوں کی جانب سے پابندی لگائے جانے کا اصل ہدف اسلامی جمہوریہ پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ سامراج کے احکامات کی تعمیل کرے اور ان کی منہ زوریوں کے سامنے سر جھکا دے اور امریکیوں کی اس طرح کی خواہشات کی کوئي انتہا نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایٹمی مسئلے کے سلسلے میں اپنی کچھ سال پہلے کی تقریر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ امریکی طے کر دیں کہ وہ ایٹمی مسئلے میں ایران کے کس حد تک پسپائي اختیار کرنے پر مطمئن ہو جائيں گے، کہا کہ وہ کبھی بھی یہ حد طے کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہوئے آخر میں ایران کی ایٹمی تنصیبات کو شمالی افریقا کے ایک ملک کی طرح ختم کر دیں اور ایران کی ایٹمی صنعت کو بند کروا دیں۔
انھوں نے ایک بار پھر پابندی لگانے میں امریکا کے اصل ہدف یعنی سیاسی و معاشی میدانوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کو پوری طرح سر جھکا دینے پر مجبور کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایران کی دولت، عزت اور پالیسیاں بعض دوسرے ملکوں کی طرح امریکا کے کنٹرول میں رہیں لیکن اسلامی نظام، غیرت اسلامی اور ایران کی عظیم اور قدیم قوم کا ان کی منہ زوری کے سامنے جھکنا ناممکن ہے۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے ملک کی معیشت کو پابندی سے نقصان پہنچنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے ملکی صلاحیتوں اور توانائيوں کے نکھرنے اور سامنے آنے کا بھی موقع اور سبب بتایا اور اسلحے کی تیاری میں ہونے والی زبردست پیشرفت کو اس موقع کا ایک نمونہ بتایا۔ انھوں نے کہا کہ اس پیشرف نے، جو صرف ایک میدان میں سامنے آئي ہے، سبھی دشمنوں کو حیرت زدہ کر دیا ہے کہ ایران نے کس طرح پابندیوں کے حالات میں اتنی بڑی تعداد میں پیشرفتہ ہتھیار بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مزید فرمایا: ان شاء اللہ ان ہتھیاروں سے زیادہ تعداد میں اور بہتر و زیادہ جدید ہتھیار بنائے جائيں گے، لیکن ترقی صرف ہتھیاروں تک ہی محدود نہيں ہے بلکہ میڈیکل اور انڈسٹری نیز انجینیئرنگ کے بہت سے شعبوں میں ایران، دنیا میں صف اول کے اور اہم ممالک میں شامل ہے۔
رہبر انقلاب نے کہا: ایرانی قوم کے خلاف تسلط پسند طاقتوں کی مخاصمت کی وجہ یہ ہے کہ خودمختار ایران، ان کی دھونس میں نہيں آتا اور ان کی ان پالیسیوں کی پیروی کرنے پر تیار نہيں ہے جن کے بارے میں خود کچھ مغربی تجزیہ نگاروں نے تسلیم کیا ہے کہ وہ امریکہ کے 200 سالہ اعتبار کو تباہ کر رہی ہيں۔
آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یورپ و امریکہ میں فلسطین کی حمایت میں سڑکوں پر عوامی مظاہروں اور وہاں فلسطین و حزب اللہ کے پرچم لہرائے جانے کا ذکر کیا اور کہا کہ غزہ کے مظلوموں کی حمایت کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام، الزام لگانے والوں کی رسوائي کا باعث ہے اور آج صرف ایرانی قوم ہی نہيں بلکہ اقوام عالم، فلسطین کی حمایت کر رہی ہیں۔
رہبر انقلاب نے روزگار اور روزگار پیدا کرنے والوں کو دشمنوں کی جانب سے ایرانی قوم پر مسلط کردہ معاشی جنگ کے محاذ پر دو اہم رکن قرار دیا اور کہا: امریکہ کے خلاف جد و جہد میں یہ دو اہم عنصر جتنے بہتر طریقے سے کام کریں گے اور ان کی طرف سے موثر کوشش کا جتنا اچھا ماحول بنایا جائے گا، ملک وقوم کو اتنی ہی زیادہ کامیابیاں حاصل ہوں گی۔
رہبر انقلاب نے سوال کیا: کیا وہ فلسطینی شہری جو اپنے گھر کو غاصب آباد کاروں کی طرف سے قبضہ کرنے کی کوشش کے خلاف جد و جہد کرتا ہے، دہشت گرد ہے؟ یا ظلم کے خلاف ڈٹ جانے والا غیرت مند مزاحمتی محاذ دہشت گردوں کا محاذ ہے یا وہ لوگ دہشت گرد ہیں جو عام لوگوں پر بمباری کرکے المیہ پیدا کر دیتے ہيں؟ ویسے ان کے ہاتھ کچھ لگا نہيں ہے اور نہ ہی لگے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں اس بات پر زور دیا کہ جوش و جذبے سے لبریز ماہر محنت کش” تیز رفتار پیداوار” کا رکن ہیں ۔
رہبر انقلاب نے مزید فرمایا: اس سال کے نعرے پر عمل کے لئے، ماہرین کے مطابق، عوامی شراکت ضروری ہے اور اس صورت میں مسائل کم ہوں گے اور جب ملک کی معیشت مضبوط ہوگی تو محنت کشوں کی آمدنی بھی بڑھے گی۔