پاکستان اور ایران تعلقات کے نشیب وفراز: کب کیا ہوا؟
ایران کی جانب سے بلوچستان کے علاقے پنجگور میں 16 جنوری کو کیے گئے حملے کے ردعمل میں پاکستان کی جانب سے 18 جنوری کو ایرانی علاقے میں جوابی حملے کے بعد سے اسلام آباد اور تہران کے سفارتی تعلقات کشیدہ ہیں۔
ایران کی جانب سے کالعدم جیش العدل کے ٹھکانے پر حملے کے نتیجے میں دو اموات ہوئی تھیں اور تین بچیاں زخمی ہوئیں جبکہ پاکستان کے مطابق اس کی جانب سے کیے گئے حملوں میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے ایرانی حملوں کو اپنی ’فضائی حدود کی سنگین خلاف ورزی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے اور اس کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔‘
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی اسلامک رپبلک نیوز ایجنسی (ارنا) نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ ایران نے پاکستان سرحد پر پنجگور کے علاقے میں جیش العدل نامی تنظیم کے ٹھکانوں پر حملے کیے، تاہم خبر چھپنے کے بعد اسے ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا تھا۔
اس حملے کے رد عمل میں پاکستان نے ایران سے اپنے سفیر کو واپس بلوا لیا اور پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر، جو اس وقت تہران میں ہیں، کو پاکستان آنے سے روک دیا ہے۔
ماضی میں بھی پاکستان اور ایران کے تعلقات میں نشیب و فراز دیکھا گیا ہے۔
اس حوالے سے مختلف تحقیقی مقالوں کا مطالعہ کیا گیا، جن میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ ایران اور پاکستان کے تعلقات کب اور کیسے تھے۔
امریکہ، ایران اور پاکستان
ایران دنیا میں پہلا ملک تھا جس نے تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کو تسلیم کیا تھا جبکہ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے 1979 کے انقلابِ ایران کے بعد وہاں کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔
جرنل آف ساؤتھ ایشین سٹیڈیز کے مطابق پاکستان اور ایران نے 1950 میں ’فرینڈشپ ٹریٹی‘ پر دستخط کیے تھے اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے 1949 میں تہران جبکہ 1950 میں پاکستان بننے کے بعد شاہ آف ایران نے پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ کیا تھا۔
ایران میں 1979 کے ’انقلاب‘ سے پہلے ماضی میں پاکستان اور ایران کے تعلقات بہت زیادہ دوستانہ تھے۔ اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹیڈیز میں فاطمہ رضا کے لکھے گئے مقالے کے مطابق اس کی وجہ اس وقت ایران کا امریکہ کا اتحادی ہونا تھا۔
امریکہ کا اتحادی ہونے کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے تعلقات اس حد تک بہتر تھے کہ انڈیا کے ساتھ جنگ میں ایران نے پاکستان کی حمایت کی تھی۔
اسی مقالے میں 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اس وقت ایران کے شاہ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا کہ ’ایران پاکستان کو مزید ٹکڑے ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا اور انڈیا کو بتا دیا گیا تھا کہ اگر انڈیا اور پاکستان کی کشیدگی مزید بڑھ گئی تو وہ پاکستان کی مدد کے لیے آگے بڑھیں گے۔‘
تاہم یہ تعلقات 1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد اس وقت خراب ہوگئے جب آیت اللہ خامنہ ای نے ایران میں ’اسلامی انقلاب‘ کا اعلان کیا اور ملک کو ایک مرکزی شیعہ اسلامک رپبلک بنا دیا۔
مقالے کے مطابق اسی دوران پاکستان میں اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے ’سنی اسلام‘ لانے کی کوششیں شروع کیں، جس کے نتیجے میں پاکستان میں 90 کی دہائی میں شیعہ سنی فسادات شروع ہوئے اور پاکستان اور ایران کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہوگئے۔
افغانستان میں طالبان کا پہلا دور اور پاکستان ۔ ایران تعلقات
افغانستان میں 90 کی دہائی میں جب افغان طالبان نے حکومت قائم کی تو تب بھی پاکستان اور ایران نے دو راستے اختیار کیے۔
جرنل آف ایشین سٹیڈیز کے مقالے کے مطابق سویت یونین کے خلاف ’افغان جہاد‘ میں ایران اور پاکستان دونوں سویت یونین کے مخالف تھے، تاہم ایران نے ’شمالی اتحاد‘ (جو زیادہ تر شیعہ ہزارہ آبادی ہے) جبکہ پاکستان نے ’مجاہدین‘ کا ساتھ دیا تھا۔
انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے مقالے کے مطابق پاکستان پہلا ملک تھا جس نے افغان طالبان کی حکومت تسلیم کی تھی جبکہ ایران نے افغانستان میں موجود شمالی اتحاد کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
بعدازاں 1998 میں افغان صوبے مزار شریف میں ایران کے سفارت کاروں کو مار دیا گیا، جب افغان طالبان نے کابل کے بعد مزار شریف پر قبضہ کیا۔
اس سب کے باوجود بھی پاکستان اور ایران کے تعلقات اس نہج پر نہیں آئے تھے کہ سفارتی تعلقات ہی منقطع ہو جائیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے مقالے کے مطابق اس کی بڑی وجہ دونوں ممالک کے وزارت خارجہ کی جانب سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں تھیں۔
اس کے بعد نائن الیون کا واقعہ ہوگیا تو پاکستان نے برملا امریکہ کا ساتھ دیا اور اسی مقالے کے مطابق ایران کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ افغان طالبان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیں لیکن اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے ایک بیان میں ایران، عراق اور شمالی کوریا کو ’برائیوں کی جڑ‘ قرار دیا تھا۔
اور یوں ایران اور پاکستان تب بھی ایک پیج پر نہیں آئے جبکہ دوسری جانب افغانستان میں ایران کی جانب سے شمالی اتحاد کی حمایت کا اعلان تھا جبکہ پاکستان اور امریکہ افغان طالبان کے خلاف ایک پیج پر تھے۔
اسی دوران ایران نے انڈیا کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کیے تاہم تب بھی تناؤ اتنا نہیں بڑھا تھا۔ مقالے کے مطابق اس وقت ایران سمجھتا تھا کہ ایران اور انڈیا کا تعلق ایسا ہی ہے، جیسے پاکستان اور سعودی عرب کا تعلق ہے۔
پاکستان ۔ ایران سرحد پر تناؤ
پاکستان اور ایران کے مابین پاکستانی صوبہ بلوچستان اور ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان کے ساتھ 909 کلومیٹر پر محیط ایک لمبی سرحد ہے۔
اس سرحد پر ماضی میں مختلف واقعات سامنے آئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے ماضی میں ایران پر سرحد پار سے در اندازی کا الزام لگایا جاتا رہا ہے جبکہ ایران کی جانب سے پاکستان میں جیش العدل نامی شدت پسند تنظیم کی موجودگی کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔
اسی سرحد پر ایرانی طرف بلوچ سنی اقلیت آباد ہے، جو ایران کی مرکزی حکومت سے ناراض اور مرکزی حکومت پر مسلک کی بنیاد پر امتیازی سکول برتنے کا الزام لگاتی ہے۔ امریکہ کے کاؤنٹر ٹیرارزم ادارے کے مطابق جیش العدل نامی تنظیم ان ہی بلوچوں کے حقوق کی بات کرتی ہے۔
مقالے کے مطابق اس تنظیم نے 2018 میں ایرانی بارڈر گارڈ کے 12 اہلکاروں کو اغوا کیا تھا اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کی مدد سے ان اہلکاروں کی بازیابی ممکن بنائی گئی تھی۔
اسی طرح اس سرحد پر ماضی میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے جوانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
ماضی میں تعلقات اس وقت زیادہ تناؤ کا شکار ہوئے تھے جب انڈیا کے جاسوس کلبھوشن یادو ایران سے اسی سرحد کے ذریعے پاکستان کے صوبہ بلوچستان داخل ہوئے اور یہاں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔
ماضی میں پاکستان نے انسداد دہشت گردی کے معاملات میں ایران کی مدد بھی کی ہے۔ جرنل آف ساؤتھ ایشین سٹیڈیز کے مطابق پاکستان نے 2007 میں بلوچستان کے ایک پہاڑی علاقے میں جندل اللہ نامی تنظیم کی جانب سے 21 ٹرک ڈرائیوروں کو بازیاب کروایا تھا۔
اسی مقالے کے مطابق جند اللہ کے مرکزی رہنما عبدالمالک ریگی کو 2010 میں طیارے میں دبئی سے کرغستان جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا اور بعد میں مار دیا گیا تھا، جس کے حوالے سے ایران میں اس وقت کے پاکستانی سفیر نے بتایا تھا کہ پاکستان کی مدد کے بغیر یہ گرفتاری ممکن نہیں تھی۔
مقالے کے مطابق اس وقت جند اللہ کے سربراہ کے بھائی عبدالحامد ریگی کو بھی پاکستان نے گرفتار کر کے ایران کے حوالے کیا تھا۔