جدید بین الاقوامی قانون کی موت

IMG_20250628_154052_186.jpg

 

کل رات جب اسلامی جمہوریہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر امریکی جارحیت کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہو رہا تھا تو میں اپنے آپ سے سوچ رہا تھا کہ کیا اس سے زیادہ کھلے عام انسانی ذہانت کی توہین ہو سکتی ہے؟ کیا تحفظ اور حقوق جیسے الفاظ اس سے زیادہ بے معنی اور حقیقت سے تہی ہو سکتے ہیں؟ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ سلامتی کونسل اور بین الاقوامی نظام کا ڈھانچہ مہران مدیری کی کڑوی کافی کے ڈھانچے سے ملتا جلتا ہے؟ ایک حصے میں دنیا کا قبلہ اول اس کھیل میں مصروف ہے جس کے ریفری خود ہیں۔ ان ملاقاتوں کی مضحکہ خیزی جس میں ایک ٹانگ امریکہ ہے یا اس کے مفادات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا قانونی نظام اس حد تک مضحکہ خیز ہو چکا ہے کہ آج سلامتی کونسل یا انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی جیسے قوانین اور قانونی اداروں پر مبنی عالمی نظام کا کوئی نشان تک نہیں ہے۔ اس دور میں جسے واضح طور پر "فطرت کی ہوبیشین ریاست” کہا جا سکتا ہے، انصاف اور عالمی ضابطوں کی کوئی جگہ نہیں ہے، اور صرف جنگل کا قانون ہی راج کرتا ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں بڑی طاقتیں آسانی سے یکطرفہ کارروائی کر سکتی ہیں اور کوئی ان کا احتساب نہیں کر سکتا، وہ ادارے جن کو کبھی عالمی نظام اور امن کا تحفظ کرنا چاہیے تھا، عملی طور پر ناکارہ ہو چکے ہیں۔ یہ بات خاص طور پر ایرانی جوہری مسئلے اور اس حوالے سے طاقتور ممالک کے حالیہ جارحانہ اقدامات کے تناظر میں واضح ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں صیہونی حکومت نے بغیر کسی بین الاقوامی نگرانی کے اپنے جوہری ہتھیار غیر قانونی طور پر تیار کیے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نئی دنیا میں ناجائز طاقتوں پر کوئی نگرانی نہیں ہے۔

 

اسرائیل، جو کبھی بھی جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) میں شامل نہیں ہوا، آزادانہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کرتا ہے اور بین الاقوامی تنظیموں کے سامنے کسی قسم کی جوابدہی سے بھی گریز کرتا ہے۔ دریں اثنا، جب ایران اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے جوہری پیش رفت کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے نہ صرف وسیع پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے مسلسل فوجی حملے کی دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دریں اثنا، بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی، جو دنیا کے ممالک کی جوہری سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے اہم اتھارٹی سمجھی جاتی ہے، عملی طور پر ایک کمزور اور غیر موثر ہتھیار بن چکی ہے۔ اگرچہ ایجنسی نے اعلان کیا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایران پرامن جوہری راستے سے ہٹ رہا ہے، لیکن یہ ادارہ کبھی بھی ایران کے خلاف بین الاقوامی دباؤ اور فوجی دھمکیوں کو روکنے میں کامیاب نہیں رہا۔ خاص طور پر ایران کی طرف سے ایجنسی کی ایٹمی تنصیبات کی وسیع نگرانی کے باوجود مغربی ممالک میں سے کسی نے بھی اس پر توجہ نہیں دی اور ایران پر اقتصادی اور فوجی دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج کی دنیا میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے پاس نہ صرف ڈیٹرنس پاور کا فقدان ہے بلکہ یہ ایک ایسا آلہ بن گیا ہے جسے بڑی طاقتیں اپنی پالیسیوں کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

 

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، جسے عالمی امن و سلامتی کا نگہبان ہونا چاہیے تھا، اب ایک غیر موثر اور حقیر ادارہ بن چکا ہے۔ اگرچہ سلامتی کونسل کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں اور آزاد ممالک پر غیر مجاز فوجی حملوں کا جواب دینا چاہیے تھا لیکن یہ ادارہ کئی بحرانوں کے باوجود خاموش ہے۔ مثال کے طور پر جب صیہونی حکومت کھلے عام ایرانی سرزمین پر ٹارگٹ کلنگ کرتی ہے تو سلامتی کونسل نہ صرف اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرتی بلکہ اس کے بعض مستقل ارکان بالخصوص امریکہ بھی ان اقدامات کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ سلامتی کونسل نہ صرف اپنا کام کھو چکی ہے بلکہ کھلم کھلا بڑی طاقتوں کے مفادات کو آگے بڑھانے کا آلہ کار بن چکی ہے۔ ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکہ کا براہ راست حملہ بین الاقوامی قانونی اداروں کی بدنامی کی ایک اور مثال ہے۔ امریکہ اقوام متحدہ کی طرف سے کسی سرکاری قرارداد کے بغیر یکطرفہ طور پر ایران کے خلاف اپنی دھمکیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور ہر روز ہمارے ملک کے خلاف فوجی کارروائی کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں نہ صرف بین الاقوامی اداروں کی طرف سے کوئی نگرانی نہیں ہوتی بلکہ طاقتور ممالک بغیر کسی جوابدہی کے بین الاقوامی قوانین کی باآسانی خلاف ورزی کر سکتے ہیں۔ اگرچہ سطحی طور پر بین الاقوامی تنظیمیں اور ادارے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عالمی سطح پر ان کا کوئی حقیقی اثر نہیں ہے۔ آج کی دنیا میں "جنگل کا قانون” غالب ہے اور جو چیز بڑی طاقتوں کے لیے اہم ہے وہ ان کے اپنے مفادات ہیں نہ کہ بین الاقوامی قوانین اور قانونی اصول۔

 

جب انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی اور سلامتی کونسل جیسے ادارے جنگوں اور یکطرفہ پابندیوں کو روکنے یا خود مختار ممالک کے حقوق کا تحفظ کرنے سے بھی قاصر ہیں تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آج کی دنیا فطرت کی ہوبیشین حالت میں داخل ہو چکی ہے۔ ایک ایسی ریاست جس میں صرف طاقت والے اپنے مقاصد کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور دوسروں کو ان کے تابع ہونا چاہیے۔ اس صورتحال میں آزاد قومیں اور ممالک صرف اسی صورت میں سلامتی اور خوشحالی حاصل کر سکتے ہیں جب وہ بڑی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔ ایران، مغربی ایشیا کے حساس جغرافیہ میں واقع ایک آزاد ملک کے طور پر، ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ آج کی دنیا میں، کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ صحیح معنوں میں اس کی حفاظت نہیں کرے گا، اور صرف اقوام کو اپنی حفاظت کے لیے خود اٹھنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے