زنجیر کی کمزور کڑی

بھارت کی حماقت کے بعد جو صورت حال بن رہی ہے، محاورے میں اسے کہتے ہیں کہ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا یعنی اب اس خیر کا امکان پیدا ہوا ہے جس کا امکان فوری طور پر تو نہیں تھا۔
طالبان والے افغانستان کے تیور بھارت کی جارحیت سے پہلے ہی بگڑے ہوئے تھے۔ بھارت کے ساتھ ان کے رابطے اور میل ملاقاتوں میں تشویش کا پہلو موجود تھا۔ صاف دکھائی دیتا تھا کہ اپنے تھوڑے سے اور محدود مقاصد کے لیے انھوں نے بھارت کا انتخاب کر لیا ہے پھر بھارت نے جب پاکستان پر جارحیت مسلط کر دی تو اس نازک مرحلے پر انھوں نے وہ کر دیا جو مرحوم ظاہر شاہ کے دور میں بھی نہیں ہوا تھا۔
1965میں بھارت نے رات کے اندھیرے میں پاکستان پر حملہ کیا تو افغانستان کا رویہ اس زمانے میں بھی ہمارے لیے زیادہ خوش گوار نہیں تھا لیکن اس باوجود ظاہر شاہ کے افغانستان کی طرف سے ہمیں کوئی تشویش لاحق نہیں ہوئی۔ جنگ کے پورے سترہ دن ہم اس محاذ سے بے فکر رہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے زمانے میں طالبان کے ‘ نظریاتی ‘ افغانستان نے یہ کارنامہ پہلی بار کیا ہے کہ اس نے منھ پھاڑ کر بھارت کی حمایت کر دی۔ طالبان کے اس طرز عمل سے مستقبل کا منظر نامہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے لیکن جنگ کے بعد جو کچھ ہوا ہے، ممکن ہے کہ یہ بات کسی کے گمان میں بھی نہ ہو۔
پاک چین دوستی کے لیے پہاڑوں سے اونچی، سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی کی تعریف جس کسی نے بھی تراشی ہو گی، کمال کی تراشی ہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں وقت اور حالات نے اس تعریف کو ہر اعتبار سے درست ثابت کیا ہے۔ جنگ کے دوران تو چین نے ہمارے ساتھ دوستی کا حق ادا کیا ہی تھا،جنگ کے بعد بھی ایک کام ایسا کیا ہے جس کے اثرات تادیر محسوس کیے جاتے رہیں گے اور اس خطے کا منظر نامہ مکمل طور پر بدل جائے گا۔
جنگ کے فوری بعد چین نے اپنی میزبانی میں پاکستان اور افغانستان کو اکٹھا کیا ہے۔ اس کانفرنس میں بہت سے امور پر تبادلہ خیال کے بعد فیصلے کیے گئے ہیں۔ ان میں سب سے اہم بات پاک چین اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع کا فیصلہ ہے۔ پاکستان اور وسط ایشیا کے درمیان افغانستان زنجیر کی نازک کڑی ہے۔ ہمارے صوفی دانشور اورمنفرد افسانہ نگار اشفاق احمد مرحوم نے کہا تھا کہ زنجیر کی کمزور کڑی ہی طاقت ور ترین کڑی ہے وہ جب چاہے زنجیر کو توڑ سکتی ہے۔ افغانستان جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کے درمیان زنجیر کی وہی کمزور کڑی تھی۔
افغانستان ان دو خطوں کے درمیان توانائی کی راہداری کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس ملک نے راہداری بن کر نہ اپنا فائدہ کیا اور نہ کسی دوسرے کواس سے مستفید ہونے دیا۔ کچھ ایسامعاملہ ہی تجارت کے باب میں رہا۔ افغانستان کے پاس دہائیوں سے جاری اپنے اس کردار کی کوئی وضاحت موجود نہ تھی کہ اس نے پاک بھارت جنگ کے موقع پر پہاڑ جیسی ایک غلطی اور کر دی۔ یہ غلطی کتنی بھیانک ہے، یہ اندازہ اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ اس تنازعے میں اس کے علاوہ صرف اسرائیل تھا جو بھارت کے ساتھ کھڑا ہوا۔
یہ تاریخ کا منفرد واقعہ ہے۔ افغانستان اور اس کی قیادت میں اگر سوچنے سمجھنے کی کچھ صلاحیت ہوتی تو وہ اس صورت حال پر ضرور غور کر کے درست فیصلہ کرتی لیکن اس کی قیادت کے عاجلانہ طرز عمل نے انھیں اسرائیل کی صف میں لا کھڑا کیا۔ آج نہیں تو کل افغان ضرور اپنی قیادت سے سوال کریں گے، نہیں کریں گے تو انھیں تاریخ کے روبرو اپنے اس عمل کا جواب دینا ہو گا۔
اس قسم کی صورت حال میں ایک طریقہ تو یہ تھا کہ اس ملک کو اس کے حال پر چھوڑ کر پڑوسی ملک آگے بڑھ جاتے۔ اب تک کسی قدر ہوتا بھی یہی رہا ہے لیکن اس بار مختلف ہوا ہے۔ چین نے پاکستان کے تعاون سے دانش مندانہ راستہ اختیار کرتے ہوئے افغانستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ یہ پس منظر تھا جس میں چین میں تین ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہوئی اور اس میں دیگر کے علاوہ افغانستان کو بھی سی پیک میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اگرچہ یہ بات واضح ہے لیکن اس کے باوجود یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس کے بارے میں یہ کہنا ضروری ہے کہ اس فیصلے میں افغانستان بھی شریک ہے۔
اس فیصلے میں افغانستان شریک ہے، یہ بتانا اس لیے ضروری ہے تا کہ یہ ذکر بھی کیا جا سکے کہ اس فیصلے کا مطلب کیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد افغانستان اس خطے کی مزید کمزور کڑی نہیں رہے گا بلکہ خطے کی دیگر اقوام یعنی پاکستان اور چین کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے استحکام کو یقینی بنائے گا پھر بات یہاں ٹھہرے گی نہیں بلکہ تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کے ذریعے خطے کی خوش حالی کی طرف جائے گی۔ اگر ان فیصلوں پر عملدرآمد ہوتا ہے جو یقینی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا یعنی یہاں نہ ٹی ٹی پی کے لیے کوئی جگہ ہو گی اور نہ بی ایل اے کے لیے۔ اس کا مزید مطلب یہ ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت عدم استحکام کے لیے اب تک جن گروہوں کی پشت پر کھڑی تھی، آیندہ کھڑی نہیں ہوگی۔ اس حقیقت کا اظہار حال ہی میں افغانستان کے پولیس چیف نے اپنی ایک تقریر میں کیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ کوئی گروہ پاکستان کے خلاف کوئی سرگرمی نہ کرے۔ ٹی ٹی پی کے لیے یہ بڑا واضح پیغام ہے۔ آنے والے دنوں میں اس ضمن میں کچھ مزید اعلانات بھی متوقع ہیں اور صورت حال میں بہتری کی امید بھی رکھنی چاہیے۔
آخری سوال یہ ہے کہ وہ افغانستان جس نے آج تک اپنے کسی وعدے کی پاسداری نہیں کی، کیا اس بار وہ اپنا وعدہ پورا کرے گا؟ اس سوال کا جواب صرف ایک ہے، یہ کہ اب تک ایسی کسی مفاہمت میں چین شریک نہیں تھا۔ اس کا مزید مطلب یہ ہے کہ بھارت کی حماقت نے خطے میں ایک نئی اور مبارک ابتدا کی گنجائش پیدا کی اور پاکستان اور چین نے اس موقع کو ضایع نہیں جانے دیا۔ خطے میں یہ ایک نئی اور شاندار ابتدا ہے ہم جس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟
ہمارے یہاں ایک محاورہ ہے، یک نہ شد دو شد۔علامہ عبد الستار عاصم نے حال ہی ایک خوب صورت کتاب شایع کی ہے، ’ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟‘ جس کے مصنف ڈاکٹر حمید رضا صدیقی ہیں۔ بہ حیثیت پاکستانی اگر ہمارے سامنے یہ سوال موجود ہے کہ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے تو سچ یہی ہے کہ یہ بات شرمندگی کی ہے لیکن حقیقت یہی ہے۔
ایسا کیوں ہوا؟ اس کا سبب یہ نہیں کہ ہم نے بابائے قوم کی شخصیت کے گرد تقدس کا حالہ بنا رکھا ہے بلکہ یہ ہے کہ ہم بد نیت تھے اور جیسا پاکستان وہ بنانا چاہتے تھے، ہم اس کے حق میں نہ تھے لہٰذا ہم نے ان کے افکار و خیالات کو غلط معنی پہنانے کا کارنامہ ہی انجام نہیں دیا بلکہ اس میں تحریف کرنے کے علاوہ ’تصنیف‘ تک کے مرحلے سے بہ آسانی گزر گئے۔ اتنے ظلم کے بعداگر آنے والی نسلیں پاکستان کے مقاصد کے بارے میں سوال نہ کرتیں تو حیرت ہوتی۔ ڈاکٹر صدیقی کی یہ مختصر کتاب ہمیں اسی سوال کا جواب فراہم کرتی ہے۔
مختلف موضوعات کا احاطہ کرنے والے کتاب کے مضامین چوں کہ عام آدمی کو پیش نظر رکھ کر لکھے گئے ہیں ، اس لیے طرز تحریر سادہ اور واضح ہے۔ بابائے قوم کی شخصیت اور پاکستان کے مقاصد کو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ہے۔
اس کتاب کا دوسرا پہلو مصنف بننے کے خواہش مندوں کے لیے ایک سبق ہے۔ اکثر ہوتا ہے کہ ہم مختلف مقاصد اور ضرورتوں کے لیے کچھ مضامین لکھ دیتے ہیں۔ اصل میں یہ بکھرے ہوئے مضامین ہوتے ہیں پھر جب کبھی پلٹ کر ہم انھیں دیکھتے ہیں تو محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے تو بہت کچھ لکھ ڈالا،کیوں نہ انھیں اکٹھا کرکے ایک کتاب بنا دی جائے۔ کتاب کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مضامین بھی اسی نوعیت کے ہیں، بکھری ہوئی تحریروں کو ایک لڑی میں پرونا آسان کام نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے یہی مشکل کام کر کے ہمیں قائد اعظم اور پاکستان کے مقاصد سے بھی آگاہ کر دیا ہے اور کتاب بنانے کا ہنر بھی سکھا دیا ہے۔