دنیا کی سب سے بڑی صیہونزم مخالف یہودی تنظیم

B-2

 

 

2008ء میں کچھ یہودی سرگرم عناصر نے ایک صیہونی مخالف تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام آئیجان (IJAN) رکھا گیا۔ یہ تنظیم دنیا کی سب سے بڑی صیہونی مخالف یہودی تنظیم جانی جاتی ہے جس کا بنیادی مقصد فلسطینیوں کے خلاف غاصب صیہونی رژیم کی ظالمانہ پالیسیوں اور اقدامات کا مقابلہ کرنا ہے۔ اسی طرح اس کے دیگر اہداف میں صیہونی نسل پرست اور فاشسٹ رژیم کا مقابلہ کرنا اور غاصبانہ قبضے کے خلاف فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرنا بھی شامل ہیں۔ اس تنظیم نے گذشتہ چند سالوں کے دوران کئی مغربی ممالک میں اسرائیل مخالف مظاہرے بھی منعقد کیے ہیں۔ اس تنظیم کے بانی صیہونزم کو یہودیت سے جدا ایک جعلی فرقہ قرار دیتے ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ صیہونی رژیم کی سوچ اور عمل کا یہودی مذہب سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہذا انہوں نے صیہونی حکمرانوں کے اقدامات اور پالیسیوں سے دوری کا اظہار کرنے کے لیے اس بین الاقوامی پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی اور یوں دنیا بھر میں اپنے اس مشن کے لیے سرگرم عمل ہو گئے۔

 

آئیجان کے رہنماوں نے ہمیشہ سے غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے باقاعدہ منصوبے کے تحت فلسطینی قوم کی نسل کشی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے ایک انسان مخالف اقدام قرار دیا ہے۔ ایجان تنظیم کی بنیاد رکھنے میں ایک یہودی خاتون سارہ کارشنار کا کردار بہت بنیادی رہا ہے۔ اس خاتون نے برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، یورپ، اسرائیل، انڈیا، میکسیکو اور ارجنٹائن کے مقامی یہودیوں کے تعاون سے اس بین الاقوامی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ آئیجان یا International Jewish Anti Zionist Network کے اہم ترین بانی رہنما درج ذیل ہیں:

1)۔ سارہ کارشنار: وہ اس تنظیم کے اصل بانیوں میں سے ایک ہیں اور انہوں نے ملت فلسطین کی حمایت میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز دوسرے انتفاضہ میں کیا۔ وہ ہمیشہ سے ملت فلسطین کے حقوق کی مدافع اور صیہونی رژیم کی پالیسیوں کی مخالف رہی ہیں۔

 

2)۔ مائیکل کالمانویچ: انہوں نے اس صیہونی مخالف تنظیم کا نیٹ ورک دنیا کے مختلف حصوں تک پھیلانے میں بہت اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے دنیا بھر کے لوگوں کو فلسطینیوں کے حقوق سے آگاہی دلوانے اور غاصب صیہونی رژیم کی ظالمانہ پالیسیاں متعارف کروانے کے لیے بہت زیادہ تگ و دو انجام دی ہے۔

3)۔ سام وینشتاین: وہ امریکہ میں پیدا ہوئے ہیں اور اینٹی صہیونزم نیٹ ورک کے انتہائی موثر بانیوں میں سے ایک ہیں۔ وہ فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں منعقد ہونے والی کئی بین الاقوامی کانفرنسز میں شرکت کر چکے ہیں اور فلسطین میں اس نسل پرست رژیم کے خاتمے پر زور دے چکے ہیں۔

 

آئیجان نے اپنے منشور میں اپنا بنیادی مقصد نسل پرست صیہونی رژیم کا خاتمہ بیان کیا ہے اور فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی اور فلسطین پر اسرائیلی استعمار کے خاتمے پر زور دیا ہے۔ اس تنظیم کے منشور میں فلسطینیوں کے حق خود ارادیت اور اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کے حق پر زور دیا گیا ہے جبکہ صیہونی رژیم کے غاصبانے قبضے کا مقابلہ کرنے پر بھی تاکید کی گئی ہے۔ منشور میں کہا گیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کے خلاف جدوجہد میں فلسطین کی قومی تنظیمیں اور ایسی تنظیمیں جن کی قیادت فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہے، بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ اینٹی صہیونزم نیٹ ورک، صہیونزم کے خلاف جدوجہد پر زور دیتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ صیہونی رژیم دنیا کی تمام اقوام پر سیاسی، قانونی اور اقتصادی تسلط کے درپے ہے۔ صہیونی مخالف یہودی، صیہونی حکمرانوں کے توسیع پسندانہ عزائم کو مسترد کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ فلسطین کی سرزمین لاوارث سرزمین نہیں ہے اور ایسا تاثر پیدا کرنے کا واحد مقصد فلسطینیوں کی زندگی تباہ و برباد کرنا ہے۔

 

آئیجان دنیا بھر میں ان صیہونی لابیوں کی بھی شدید مخالف ہے جن کا واحد مقصد عالمی سطح پر غاصب صیہونی رژیم کے لیے حمایت اور ہمدردی حاصل کرنا ہے۔ اینٹی صہیونزم نیٹ ورک ظلم کے خلاف جدوجہد اور ملت فلسطین کو انصاف دلوانے پر زور دیتا ہے۔ 2008ء میں جب غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کی پٹی پر فوجی جارحیت کا آغاز کیا تو آئیجان کے سرگرم صیہونی مخالف یہودیوں نے امریکہ اور کچھ دیگر مغربی ممالک کے شہروں میں احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جن میں لاس اینجلس میں صیہونی قونصلیٹ کے سامنے بڑا احتجاجی مظاہرہ بھی شامل تھا۔ اسی طرح اس تنظیم کے سرگرم اراکین نے 2009ء میں بھی نیویارک میں صیہونی رژیم کے سفارتی وفد کی رہائشی عمارت کے سامنے مظاہرے منعقد کیے۔ مزید برآں، اس تنظیم نے 2014ء میں بھی غزہ پر صیہونی جارحیت کی شدید مذمت کی اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ صیہونی حکمرانوں کے خلاف عدالتی کاروائی کی جائے۔ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد شروع ہونے والی حالیہ غزہ جنگ کے دوران بھی اس تنظیم نے امریکہ کی یونیورسٹیوں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف طلبہ احتجاجی تحریک شروع کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے