پانامہ کینال اور ٹرمپ

e2b46950-c5ed-11ef-9999-dfde4758abcc.jpg

امریکا کے نامزد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا عہدہ صدارت سنبھالا ہی نہیں لیکن ابھی سے متنازع بیانات دے کر دنیا کو خبردار کردیا ہے کہ ایک سپرپاور کے صدر ہونے کے ناطے امریکا اور دنیا کے لیے اگلے 4 سال کیسے ہونگے۔ٹرمپ نے کینیڈا کو امریکا میں شامل ہونے کا مشورہ دینے کیساتھ ساتھ گرین لینڈ اور پانامہ کینال کو امریکی تذویراتی اثاثہ (Strategic Asset)  قرار دیا ہے اور ان پر ہرحال میں قبضہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ کیا ٹرمپ حقیقتا ایسا کچھ کرے گا یا یہ صرف ایک دھمکی ہے یہ تو وقت آنے پر معلوم ہوگا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ٹرمپ پانامہ کینال پر قبضہ کیوں کرنا چاہتا ہے؟

اگر پانامہ کینال کی تذویراتی اور معاشی و تجارتی حیثیت کو دیکھیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کی تجارت کے ایک بہت بڑے حصے کا دارومدار پانامہ کینال پر ہے۔ سنہ 1970 کی دہائی تک امریکا کی 66 فیصد تجارت سمندری راستے سے پانامہ کینال سے ہی گزر کرآتی تھی۔ یہ 2 سمندروں پیسیفک اور اٹلانٹک اوشن کے درمیان فاصلے کو شارٹ کرتی ہے جسکی وجہ سے نہ صرف وقت کی بچت ہوتی ہے بلکہ لاگت بھی کم پڑتی ہے۔ اب بھی امریکا کی 44 فیصد تجارت پانامہ کینال سے ہی گزرتی ہے۔

پانامہ کینال کی تجارتی اہمیت تو واضح ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس پر امریکا کیوں قبضہ کرنا چاہتا ہے اور ٹرمپ نے یہ دھمکی کیوں دی ہے۔ اگر اس کینال یا سمندری تجارتی راہداری کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کینال کی تعمیر ہی امریکا نے کی تھی اور تقریباً 7 دہائیوں تک اسکو امریکا ہی آپریٹ کرتا تھا لیکن سنہ 1979 میں امریکی صدر جمی کارٹر نے اسکو محض ایک ڈالر کےعوض پانامہ کی حکومت کے حوالے کردیا کہ وہ خود ہی اسے آپریٹ کریں۔

یہ کینال بنی کب تھی، کیسے بنائی گئی؟ آئیے ذرا اسکا جائزہ لیتے ہیں۔

سنہ 1880  میں فرانس نے پانامہ میں جو کہ اس وقت کولمبیا کا ایک صوبہ تھا وہاں ایک کینال تعمیر کرنے کا منصوبہ شروع کیا۔ منصوبے کی نگرانی فرانسیسی حکومت نے فرڈیننڈ دا لیسیپ ( Ferdinand de Lesseps ) کو دی۔ اس سے پہلے فرڈیننڈ مصر میں سوئز کینال تعمیر کرنے کا تجربہ کرچکا تھا اس لیے پانامہ کینال بنانے کی ذمہ داری بھی اسے دی گئی۔فرانسیسیوں نے اس منصوبے پر کام شروع کیا اور 9 سال تک اس پر کام میں لگے رہے۔ لیکن 9 سال بعد سنہ 1889 میں پانامہ کینال منصوبے کو چھوڑ کر انکو بھاگنا پڑا اور اسکی بنیادی وجہ وہاں ورکرز کو مسائل اور بیماریاں تھیں۔ ٹراپیکل بیماریوں کیوجہ سے ورکرز ملیریا اور ییلو فیور کیوجہ دن رات مر رہے تھے۔ ان 9 سالوں میں پانامہ کینال پر کام کرنے والے تقریباً 20 ہزار ورکرز نے اپنی جان گنوائی۔ اس لیے فرانسیسی اس منصوبے پر مزید کام کیے بغیر وہاں سے بھاگ گئے اور یوں یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا۔

امریکا اس نہر پر پہلے ہی نظر رکھے ہوئے تھا کیونکہ انکے لیے اس نہر میں دلچسپی کیوجہ تجارتی روٹ میں کمی کیساتھ ساتھ ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات کی بچت بھی تھی۔ فرانس کے بھاگنے کے بعد امریکا نے کولمبیا کیساتھ اس کینال کی تعمیر کا معاہدہ کیا۔ سنہ 1902 میں امریکی سینیٹ سے قرارداد پاس ہونے کے بعد امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ  John Hayنے کولمبیا کیساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ لیکن اس معاہدے میں جو فنانشل ٹرمز اینڈ کنڈیشنز تھی وہ کولمبیا نے مسترد کردی اور یوں یہ معاہدہ پورا نہ ہوپایا۔کولمبین حکومت کیطرف سے معاہدے کو ریجیکٹ کرنے پر امریکا کو غصہ تھا اور انہوں نے اسکا بدلہ اتارا۔ معاہدے کی منسوخی کے بعد امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ نے امریکی وارشپس پانامہ سٹی جو کہ Pacific Ocean پر واقع ہے اور کولون جو کہ Atlantic sea پر واقع ہے ان میں اتار دی اور پاناما کی آزادی کے لیے لڑنے والے علیحدگی پسندوں کی کھل کر مدد کی۔

3  نومبر 1903 کو پانامہ نے کولمبیا سے اپنی آزادی ڈیکلئیر کرکے ایک آزاد ملک ہونے کا اعلان کردیا۔ پانامہ کی نئی نویلی حکومت سے امریکا نے ایک نیا معائدہ سائن کیا جسکے تحت پانامہ کی حکومت کیطرف سے امریکا کو ایک 10 میل چوڑی پٹی مختص کی گئی کینال بنانے کے لیے۔ اسکے عوض امریکا نے یکمشت 10 ملین ڈالر اور سالانہ 250000 ڈالر دینے کا وعدہ کیا۔ مجموعی طور پر اس منصوبے پر 375 ملین ڈالر خرچ ہوئے اور یہ امریکا کا اسوقت دنیا کا سب سے مہنگا منصوبہ قرار دیا گیا۔ ان 375 ملین ڈالرز میں فرانس کو ادھورا منصوبہ چھوڑنے کے عوض 40 ملین ڈالر بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ امریکا کی ملکیت ہے اس لیے امریکا واپس حاصل کرے گا۔ کیا ٹرمپ اسے واپس حاصل کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات بھی کرے گا یا صرف بیانات کی حد تک ہی رہے گا یہ آنے والے 4 سالوں میں واضح ہوجائے گا۔

کالم نگار :- عزیز درانی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے