غیر ملکی سمیں: سہولت یا سکیورٹی خطرہ

پاکستان میں غیر ملکی سموں کے ذریعے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی مونیٹا ئزیشن کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے جس کا اندازہ انٹرنیٹ پر برطانوی سموں کی بڑھتی ہوئی تشہیر سے لگایا جا سکتا ہے۔سوشل میڈیا پر اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ برطانوی سم کے ذریعے نہ صرف ٹک ٹاک بلکہ واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بھی مالی فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، پاکستان میں سلامتی کے ذمہ دار اداروں کا کہنا ہے کہ غیر ملکی سموں کا کاروبار قومی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
برطانوی سم ہی کیوں؟
گوگل پر ‘یو کے سم ان پاکستان‘ تلاش کرنے پر آپ کو معروف برانڈز کی متعدد ویب سائٹس نظر آتی ہیں جو برطانوی سموں کی گھر تک ترسیل کی سہولت فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔آصف منشاء سوشل میڈیا مونیٹا ئزیشن کے کاروبار سے وابستہ ہیں، نے نمائندہ بصیر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ یہ سمیں برطانیہ سے رجسٹرڈ ہوتی ہیں اس لیے گوگل ان کے ذریعے چلنے والے سوشل میڈیا مواد کو زیادہ فروغ دیتا ہے جو مقامی سمز کے ساتھ ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں لوگ ان سموں کو آمدن کے حصول کا ذریعہ بنانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔آصف نے مزید کہا، ’’لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس غیر ملکی لوکیشن نہ ہو تو پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے کمائی ممکن نہیں اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ گوگل ترقی یافتہ ممالک کے مواد کو زیادہ ترجیح دیتا ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک پر کئی پابندیاں عائد ہیں۔
اسلام آباد سے سوشل میڈیا انفلو ئنسر فرحان کے مطابق پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سم برطانوی کمپنی ’’جیف گیف‘‘ کی ہے۔ کمپنی کی پالیسی کے مطابق آپ دنیا کے کسی بھی حصے سے اس سم کو آن لائن خرید سکتے ہیں اور یہ سم آپ کے پتے پر بھی پہنچائی جا سکتی ہے۔ کچھ عرصہ تک یہ برطانوی کمپنی خود پاکستان میں اپنی سمیں بھیجتی رہی ہیں مگر اب پاکستان کے لیے یہ سہولت بند کر دی گئی ہے۔ لوگ اب اپنے طور پر یہ سم اسمگل کر کے استعمال کر رہے ہیں۔ایف آئی اے کے مطابق، برطانوی کمپنی نے دنیا بھر کے موبائل آپریٹرز سے الحاق کر رکھا ہے جس کی وجہ سے اس کی سم تقریباً ہر ملک میں کام کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سم کا بنیادی مقصد سیاحوں کو رومنگ کی سہولت فراہم کرنا تھا مگر بڑھتی ہوئی مسابقت کے باعث یہ عمل اتنا آسان ہو گیا کہ اب یہ پاکستان میں ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
غیر ملکی سم: قانونی یا غیر قانونی؟
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے حکام کے مطابق ہر شخص صرف وہی سم اپنے فون میں استعمال کر سکتا ہے جو اس کے نام پر رجسٹرڈ ہو۔ چاہے سم ملکی ہو یا غیر ملکی اگر وہ صارف کے نام پر رجسٹرڈ نہیں ہے تو اسے غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔ادارے کے قوائد و ضوابط کے مطابق سموں کا اجراء ”سبسکر ائبر اینٹیسیڈنٹ ویری فکیشن ریگو لیشنز 2015‘‘ کے تحت کیا جاتا ہے، تاہم غیر ملکی سموں کی فروخت ان قوانین کے دائرہ کار میں نہیں آتی۔ چونکہ یہ سمیں مقررہ قانونی فریم ورک کے مطابق جاری نہیں ہوتیں اس لیے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ایف آئی اے حکام کے مطابق، غیر قانونی سموں کا استعمال نہ صرف سائبر کرائم بلکہ مالیاتی فراڈ، بلیک میلنگ اور شناختی چوری جیسے سنگین جرائم میں بھی کیا جاتا ہے۔ جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے مجرموں کا سراغ لگا نا مشکل ہو جاتا ہے۔
غیر ملکی سمیں: سہولت یا سکیورٹی خطرہ
ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم ملتان زون عبد الغفار نے کہا، ان سموں کا مالیاتی جرائم، سائبر کرائم اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ برطانیہ میں مقیم بعض افراد سمیں پاکستان بھیجتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ انہیں صرف مونیٹا ئزیشن یا سوشل میڈیا سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ تاہم، حقیقت میں یہ سمیں جرائم پیشہ عناصر کو فروخت کر دی جاتی ہیں جو انہیں غیر قانونی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ایف آئی اے حکام کے مطابق، پاکستان میں ایک منظم گروہ اس کاروبار میں ملوث ہے اور ملتان ایئرپورٹ پر کی گئی حالیہ کارروائی کوئی اتفاقیہ واقعہ نہیں تھا بلکہ یہ خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کی گئی تھی۔تفتیش سے معلوم ہوا کہ برطانوی سموں کو زیادہ محفوظ تصور کیا جاتا ہے کیونکہ ان پر بنائے گئے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو پاکستان کی حدود سے باہر سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے جرائم پیشہ افراد ان سموں کو بھاری معاوضے کے عوض پر خریدتے ہیں جبکہ اسمگلرز انہیں کم قیمت پر لاکر پاکستان میں کئی گنا مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔
غیر ملکی سموں کا استعمال کیسے روکا جائے؟
پی ٹی اے حکام نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ادارہ غیر ملکی سموں کی درآمد اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے مشاورت کر رہا ہے جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ساتھ مل کر کارروائیاں بھی عمل میں لائی جا رہی ہیں۔اس سلسلے میں ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ اداروں بشمول پی ٹی اے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان غیر قانونی طور پر بیرون ملک سے لائی گئی سموں کے خلاف سخت اقدامات کے حوالے سے حالیہ ایک تفصیلی اجلاس منعقد کیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ غیر قانونی سموں کی روک تھام کے لیے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی تاکہ انکے جرائم میں استعمال ہونے کی روک تھام کی جاسکے۔