حکمران اشرافیہ کا ایک اور ’’کامیاب‘‘ بجٹ
ایک زمانہ تھا کہ بجٹ اعلان سے قبل تجسس کا عالم پایا جاتا۔ اب تو ہر بجٹ وقت سے پہلے آؤٹ ہونے والے امتحانی پرچے کی مانند ہے جس کی نقل بمطابق اصل ہر ٹی وی اور موبائل فون اسکرین پر دستیاب ہوتی ہیں۔
پچیس سال سے زائد ہونے کو آئے ہیں کہ ہر بجٹ کم و بیش آئی ایم ایف کی شرائط کا اسیر ہوتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ پی ڈی ایم ون حکومت نے لگی لپٹی رکھے بغیر بتایا کہ ڈیفالٹ کا خطرہ مول لو یا پھر آئی ایم ایف پروگرام کا پورا تول لو۔ موجودہ وزیر خزانہ نے بھی یہی سمجھایا: “کوئی پلان بی نہیں ہے۔” اول و آخر آئی ایم ایف کا ہی پلان ہے۔
پاکستانی معیشت تین دہائیوں سے دوہرے خسارے کے گھن چکر میں ہے۔ حکومتی محاصل کم اور اخراجات زیادہ ہیں، ایکسٹرنل اکاؤنٹ میں برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہیں۔ تجارتی خسارہ شرح مبادلہ پر اثرانداز ہوتا ہے۔ درآمدات پر بڑھتے ہوئے انحصار نے تجارتی خسارے کا حجم ناقابل برداشت حد تک بڑھایا ہے۔ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں اضافے کے باوجود کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قابو میں نہیں آسکا۔
دوہرے خسارے کا وقتی حل قرضے سمجھ آیا، سو ہر آنے والی حکومت نے اپنے پیش رو سے زائد قرضے لیے۔ سالہا سال کی اس قرض خواری کا نتیجہ یہ ہے بجٹ کا دو تہائی سے زائد سود اور قرض ادائیگیوں میں صرف ہونے لگا ہے۔ پرانے قرض نئے قرضوں سے اتارے جا رہے ہیں ، جاری اخراجات کا بیشتر حصہ بھی اب قرضوں سے پورا ہوتا ہے۔
جو تھوڑی بہت معاشی گروتھ ہوئی وہ امپورٹ پر مبنی رہیں، ہر عارضی جی ڈی پی گروتھ کے بعد پھر وہی خساروں کے شگاف سامنے، اس انداز معیشت نے اب اس حال پر پہنچا دیا ہے کہ ہم ہیں اور آئی ایم ایف ہے دوستو! خیر سے 24 ویں قرض پروگرام کی تیاری ہے۔حکومت ہر بار اصلاحات کا علم لہراتی ہے لیکن ڈھاک کے پات تین سے بڑھے نہ حکومت بیانات بازی سے آگے بڑھی۔
موجودہ بجٹ میں بھی حکومت کے سامنے وہی پرانے چیلنجز تھے۔ خزانے میں کچھ ہے تو نہیں لیکن کچھ نہ کچھ کرنا تو ہے۔ سو حکومت نے بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں خاطر خواہ اضافہ کرکے عوام کے ریلیف کا بندوست کیا۔ عوام کے وہ طبقات جو ان کیٹیگریز میں نہیں آتے ان کی اپنی قسمت ، تاہم حکومت نے اپنے تئیں ریلیف کے دریا بہا دیے۔
بجٹ میں عوامی نمایندوں کے حلقہ انتخاب کے لیے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حجم گزشتہ سال 834ارب سے بڑھا کر 1500ارب تک بڑھایا۔ سیاست بڑی بے رحم اور اس کے تحت ترقیاتی فنڈز کا حصول کہیں زیادہ بے باکی اور ہمت کا کام ہے۔ اللہ جانے یہ میڈیا کا کمال ہے یا حقیقت حال سے آنکھیں چرانے کی عادت کہ ہر بجٹ میں عوام کے لیے ریلیف کی تلاش میں ہلکان ہونے لگتے ہیں۔
پاکستان کا اقتصادی ڈھانچہ گزشتہ تین دہائیوں سے جن خطوط پر استوار ہے اس میں ویلیو ایڈڈ مینوفیکچرنگ اور برآمدات ترجیح ہے ہی نہیں۔ بلکہ ایک غیر مرئی اینٹی ایکسپورٹ رویہ ہے جس کی وجہ سے دنیا کے بدلتے تجارتی رجحانات سے ہم آہنگی کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ ن لیگ ، پی پی پی، پی ٹی آئی کی حکومت رہی یا پرویز مشرف کی ، برآمدات کی باسکٹ بڑھانے کی سنجیدہ کوششیں کسی ایک حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ تیس چالیس سال سے وہی فرسودہ ٹیکسٹائل ، لیدر گڈز اور چاول جیسی پراڈکٹس ہماری ایکسپورٹس کا آسرا ہیں۔ ورلڈ ایکسپورٹ کے اعداد وشمار دیکھیں تو ٹیکسٹائل کا نمبر حجم کے اعتبار سے عالمی تجارت میں آٹھواں ہے۔
پہلے سات نمبرز پر دیگر ہائی ٹیک اشیاء ہیں جو ہم امپورٹ شوق سے کرتے ہیں مگر ان کی ملک میں تیاری کا کبھی سوچا بھی نہیں۔ اسمگلنگ اور امپورٹس کی حوصلہ افزائی نے مینوفیکچرنگ کی بالعموم حوصلہ شکنی کی ہے۔ رہی سہی کسر ہمارے ہاں انٹرپرینیورشپ کے فقدان نے پوری کر دی ہے۔
اسٹاک ایکسچینج پر 76ہزار کی چھلانگیں اپنی جگہ مگر گزشتہ تین سالوں میں کتنی نئی کمپنیاں لسٹ ہوئیں؟ ملک میں صنعتی پیداوار کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ نتیجہ یہ کہ ویلیو ایڈڈ فاضل پیداوار ایکسپورٹس کے لیے دستیاب ہے نہ فوری امکان۔ لے دے کر اسی فرسودہ ایکسپورٹ باسکٹ سے توقع باندھے بیٹھے ہیں۔
کون مر نہ جائے اس سادگی پر!صنعتی پیداواری میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونے سے معاشی جمود اور بے روزگاری ہمارا مقدر ٹھہری۔ ایک طرف آبادی کا بڑھتا ہوا بوجھ، دوسری طرف شہری آبادیوں کا بے ہنگم پھیلاؤ، آبادی میں نوجوانوں کی کثیر تعداد بہتر زندگی اور حالات کار کی متمنی ہے۔ نوجوانوں میں مایوسی اور جھنجھلاہٹ بڑھ رہی ہے۔ ملک سے برین ڈرین ہو رہا ہے۔
ہر سال کم ہوتی ہوئی قوت خرید نے متوسط طبقے کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ حکومت بار بار کریڈٹ لے رہی کہ مہنگائی کم ہوئی ہے، اگلے سال کا ٹارگٹ 12فی صد ہے لیکن اشیائے خور و نوش اور دیگر ضروریات زندگی کی بنیادی قیمتیں نئی سطح پر عوام کی پہنچ سے دور ہیں۔
گزشتہ دو تین سال کے دوران ایک سو روپے کلو کی چیز دو سو بلکہ اڑھائی سو روپے کلو ہو چکی، سو روپے کی بنیاد پر 12 فی صداضافہ 12روپے بنتا ہے مگر دو سو روپے کی موجودہ قیمت پر اس 12فی صد اضافے کا مطلب 24روپے بنتا ہے، یعنی مہنگائی کی رفتار کم ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ قیمتیں پرانی سطح پر واپس آ رہی ہیں۔
آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط کا مشکل امتحان حکومت نے ضرور پاس کرلیا لیکن متوسط اور غریب عوام اپنی اپنی زندگیوں میں فیل ہو رہے ہیں۔ حکومتی اور اپوزیشن کی ترجیحات چغلی کھا رہی ہیں کہ انھیں اپنی اپنی سیاسی اجارہ داری سے غرض ہے، عوام کا کیا ہے، کچھ دیر بول بلارا کرکے اپنی اپنی صبح کو شام کرنے کی اذیت میں جت جائیں گے۔ اس اعتبار سے حکمران اشرافیہ کا یہ ایک اور “کامیاب” بجٹ ہے۔