جنگ بندی کی قرارداد منظور: کیا اسرائیل عالمی برادری میں تنہا ہورہا ہے؟

1838.jpg

غزہ میں جاری نسل کشی کو 9 ماہ گزر جانے کے بعد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بلآخر جنگ بندی کے منصوبے کی توثیق کردی ہے جس میں عہد کیا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں جارحیت ختم کی جائے۔امریکی تجاویز کی حمایت میں منظور کیا جانے والا تین مراحل پر مشتمل یہ منصوبہ جس کے حق میں 15 رکنی سلامتی کونسل کے اراکین نے ووٹ دیا جبکہ اس موقع پر ایک رکن ملک روس غیر حاضر رہا۔ ان اراکین نے ’فوری طور پر جنگ بندی کی شرائط لاگو کرنے‘ کا مطالبہ کیا۔ اس قرارداد کی پاسداری کے سب پابند ہیں۔گزشتہ سال اکتوبر میں غزہ میں اسرائیل کے حملے کے بعد سے سلامتی کونسل تذبذب کا شکار تھی کہ اس جنگ کو کیسے ختم کیا جائے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جب سلامتی کونسل نے فوری طور پر غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے جوکہ اسرائیل کی جارحانہ زمینی اور فضائی کارروائیوں کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔

اس سے قبل سلامتی کونسل نے رمضان کے مہینے میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن اسرائیل جنگ بندی سے انکاری تھا۔ دلچسپ طور پر سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی گزشتہ قراردادوں میں امریکا نے ویٹو کیا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ نسل کشی میں مکمل طور پر اسرائیل کا ساتھ دے رہی تھی۔البتہ یہ جنگ بندی کا مطالبہ بہت دیر سے سامنے آیا ہے کہ جب 38 ہزار مظلوم فلسطینی اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں میں لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے جبکہ غزہ کی 80 فیصد عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوچکیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ قرارداد نسل کشی کے خاتمے کے لیے امید کی کرن ہے۔ عمل درآمد کے حوالے سے ابہام کے باوجود اسے غزہ میں مستقل جنگ بندی کی جانب پیش قدمی کے معنوں میں لیا جاسکتا ہے۔

ایک ہفتے کے سلامتی کونسل کے سخت مذاکرات کے بعد قرارداد کو حتمی شکل دی گئی۔ چند اراکین کی جانب سے متن میں استعمال کی گئی زبان پر تحفظات (جس کا جھکاؤ اسرائیل کی جانب زیادہ نظر آیا) کے باوجود روس کے علاوہ سلامتی کونسل کے تمام اراکین نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ روس نے تجویز دی تھی کہ اس قرارداد میں ترمیم لائی جائے اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا جائے۔چین نے اس موقع پر کہا کہ وہ قرارداد کی حمایت کرتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ جنگ ختم ہو اور یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آئے۔ اقوامِ متحدہ میں چینی مندوب نے کہا، ’ہمیں اب بھی خدشات ہیں کہ آیا فریقین جنگ بندی کی شرائط کو قبول کریں گے یا نہیں اور اس قرارداد پر آسانی سے عمل درآمد ممکن ہوگا یا نہیں۔جنگ بندی کے متعلقہ منصوبے میں پہلا مرحلہ ابتدائی 6 ماہ کی جنگ بندی کی تجویز پیش کرتا ہے جس میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، غزہ کے گنجان علاقوں سے اسرائیلی افواج کا انخلا اور بےدخل فلسطینیوں کی اپنے علاقوں میں واپسی شامل ہے۔ اس کے لیے ’غزہ کی پٹی پر بڑے پیمانے‘ پر انسانی امداد کی تقسیم کی ضرورت ہے۔

منصوبے کے تحت دوسرے مرحلے میں دونوں فریقین کے درمیان ’دشمنی کے مستقل خاتمے‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ ’غزہ میں اب تک موجود تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا کے بدلے میں‘ ہوگا۔ تیسرا مرحلہ ’غزہ کے لیے تعمیر نو کے کثیر سالہ بڑے منصوبے اور ہلاک یرغمالیوں کی باقیات جو اب بھی غزہ میں موجود ہیں، انہیں اسرائیل میں ان کے خاندانوں کو واپس کرنے‘ پر غور کرتا ہے۔قرارداد یہ بھی کہتی ہے کہ پہلے مرحلے کے لیے مذاکرات میں 6 ہفتوں سے زائد کا وقت لگ جاتا ہے تو ’جنگ بندی تب تک جاری رہے گی جب تک مذاکرات جاری رہیں گے‘۔ سب سے اہم قرارداد ان تمام کوششوں کو رد کرتی ہے جو غزہ کی زمین یا آبادی کو تبدیل یا اس کے رقبے کو کم کرنے سے متعلق ہو۔اس میں سلامتی کونسل کے ’مذاکرات کے ذریعے دو ریاستی حل کے نظریہ کو حاصل کرنے کے لیے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا گیا ہے جہاں دو جمہوری ریاستیں، اسرائیل اور فلسطین محفوظ اور تسلیم شدہ سرحدوں میں امن کے ساتھ شانہ بشانہ رہیں‘۔ اس قرارداد میں ’فلسطینی اتھارٹی کے تحت غزہ کی پٹی کی مغربی کنارے کے ساتھ الحاق کی اہمیت‘ پر بھی زور دیا گیا ہے۔

یہ تمام نکات بلاشبہ مثبت ہیں لیکن اصل چیلنج یہ ہے کہ ان پر عمل در آمد کیسے ہوگا۔ اب یہ امریکا اور دیگر عالمی قوتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس منصوبے پر مکمل طور پر عمل درآمد کروائیں۔تاہم اس حوالے سے اہم سوال یہ ہے کہ تین مراحل پر مشتمل جنگ بندی کا منصوبہ جسے اقوامِ متحدہ کے طاقتور ترین رکن کی سرپرستی حاصل ہے، کیا اسرائیل اس پر رضامند ہوگا؟ ایک جانب حماس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کا خیرمقدم کیا ہے اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو مُصر ہیں کہ حماس کی عسکری اور حکومتی صلاحیتوں کو ختم کیے بغیر مستقل جنگ بندی پر کسی بھی بات چیت کا آغاز نہیں ہوسکتا۔نیتن یاہو کے چند دائیں بازو کے حکومتی رہنماؤں کی جانب سے اس تجویز کو مسترد کردیا گیا ہے تو اس بات کا امکان انتہائی کم ہے کہ صہیونی حکومت اس کی تمام شرائط پر عمل درآمد کے لیے رضامند ہوگی۔ اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے مندوب نے کہا کہ اس جنگ میں ملک کے مقاصد میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہ یرغمالیوں کو آزاد کرنے کے لیے ملٹری آپریشنز کرے گا، بالکل اسی طرح جس طرح وہ سلامتی کونسل کی قرارداد منظور ہونے سے پہلے کررہا تھا۔

یہ تو واضح ہے کہ اسرائیل فوری جنگ بندی پر رضامند نہیں ہوگا۔ بنیامن نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل اس وقت تک لڑے گا جب تک حماس کی عسکری اور حکومتی صلاحتیں تباہ نہیں ہوجاتیں۔ اس میں کوئی عندیہ نہیں کہ دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت اس امن منصوبے کی شقوں کو قبول کرنے کی جانب کوئی جھکاؤ رکھتی ہے۔گزشتہ ہفتے اسرائیل کی ہنگامی کابینہ سے سینٹرسٹ پارٹی کے رہنما بینی گینٹز نے استعفیٰ دیا جس سے لگتا ہے کہ اسرائیلی حکومت پر دائیں بازو کی گرفت مضبوط ہوئی ہے۔ سابق وزیر اور نیتن یاہو کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے بعد غزہ میں شہریوں کے امور کی نگرانی سے متعلق سنگین نوعیت کے اختلافات تھے۔کابینہ سے ان کے استعفیٰ سے نیتن یاہو کا جھکاؤ انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی جانب ہوسکتا ہے جس سے اقوامِ متحدہ کی قرارداد پر عمل درآمد مزید دشوار ہوجائے گا۔ انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں دھمکی دے چکی ہیں کہ اگر وزیراعظم جنگ بندی پر رضامند ہوتے ہیں تو وہ حکومت گرا دیں گی۔

دوسری جانب گزشتہ چند ہفتوں سے اسرائیل نے جنوبی اور وسطی غزہ میں زمینی اور فضائی کارروائیوں کا سلسلہ تیز کردیا ہے، جو جارحانہ کارروائیاں روکنے کے عالمی دباؤ کی کھلی نفی ہے جس میں دسیوں ہزاروں مظلوم فلسطینی شہید ہوچکے۔ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے لیے عالمی عدالت سے نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی استدعا کی ہے۔یہ ظاہر ہورہا ہے کہ اسرائیل جنگ کے خاتمے میں مسلسل انکار کی وجہ سے عالمی برادری میں تنہا ہورہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قرارداد جنگ سے نکلنے کی راہ فراہم کررہی ہے لیکن لگتا ہے صہیونی ریاست پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کا سب سے قریبی اتحادی کتنا زور آزماتا ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے