متنازع ٹوئٹ اور سقوط ڈھاکہ
گزشتہ دنوں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے سوشل میڈیا اکائونٹ سے پوسٹ کی گئی ویڈیو اور ٹوئٹ کا معاملہ آج کل موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ’’غدار کون؟‘‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ شیئر کی گئی ویڈیو میں عمران خان نے عوام کو سقوط ڈھاکہ سے متعلق حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’عوام یہ فیصلہ کرے کہ سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار اور پاکستان کا غدار کون تھا۔‘‘ ویڈیو میں شیخ مجیب الرحمن کو ’’ہیرو‘‘ اور اُس وقت کے فوجی سربراہ کو ولن اور غدار کے طور پر پیش کیا گیا۔ متنازع ٹوئٹ اور ویڈیو پر عوام، حکومت اور افواج پاکستان کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ عوام کی جانب سے شدید تنقید کے باعث یہ امید کی جارہی تھی کہ عمران خان اس ٹوئٹ کوڈیلیٹ کردیں گے مگر افسوس کہ انہوں نے ایسا کرنا گوارا نہ کیا بلکہ اڈیالہ جیل میں ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم کے سامنے اپنی ٹوئٹ کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’’مذکورہ ٹوئٹ کا مقصد سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے عوام میں آگہی پیدا کرنا اور ذمہ داروں کا تعین کرنا تھا۔‘‘
سقوط ڈھاکہ ہر پاکستانی کیلئے ایک ایسا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر سکے۔ اس حوالے سے کچھ تلخ حقائق شیئر کرنا چاہوں گا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اور شیخ مجیب الرحمن کے درمیان بھارت میں قید 90 ہزار پاکستانی جنگی قیدیوں کی تذلیل کیلئے ایک خفیہ منصوبے پر اتفاق ہوا جس کے تحت بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھارت نے 1972 میں بنگلہ دیش کو تسلیم کرانے کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی جسے سلامتی کونسل کے بیشتر ارکان کی حمایت حاصل تھی اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ یہ قرارداد منظور ہوجاتی تو بنگلہ دیش ایک مملکت کے طور پر وجود میں آتا اور اقوام متحدہ کا ممبر بن جاتا جس کے بعد بھارت ان 90ہزار پاکستانی فوجیوں کو بنگلہ دیش کے حوالے کردیتا اور بنگلہ دیش ایک خود مختار ملک ہونے کے ناطے ان فوجیوں پر قتل، عصمت دری اور جنگی جرائم کا مقدمہ چلاکر انہیں سرعام پھانسی اور دیگر کڑی سزائیں دیتا۔ ایسا کرکے مجیب الرحمن اپنے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے کہ بنگالیوں کے قتل عام میں مبینہ ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا جبکہ بھارت ایسا کرکے پاک فوج کی عالمی سطح پر تذلیل کرنا چاہتا تھا۔ پاکستان کیلئے یہ انتہائی مشکل صورتحال تھی۔ ایسے میں حکومت پاکستان نے چین کو بھارت کے مذموم عزائم سے آگاہ کیا اور مدد چاہی۔ چین کچھ ماہ قبل ہی اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا رکن بنا تھا اور اسکی رکنیت کا یہ پہلا سال تھا۔ چین نے پاکستان سے وعدہ کیا کہ ایسے کڑے وقت میں وہ پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑے گا اور بھارت کے مذموم عزائم کامیاب نہیں ہونے دے گا۔
اس طرح جب بنگلہ دیش کو تسلیم کرانے کی قرارداد سلامتی کونسل میں پیش کی گئی تو چین وہ واحد ملک تھا جس نے قرارداد کو ویٹو کرکے پاکستان اور پاک فوج کو بھارت کی گھنائونی سازش سے بچالیا۔ بعد ازاں جب بھارت کو یقین ہوگیا کہ چین کے ہوتے ہوئے بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا جائے گا تو بھارت کیلئے 90 ہزار فوجی ایک بوجھ بن گئے اور وہ ان کی واپسی کیلئے پاکستان سے شملہ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا جسکے نتیجے میں ان فوجیوں کی باعزت طریقے سے وطن واپسی ممکن ہوئی اور 1974میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
90 ہزار فوجیوں کی باعزت وطن واپسی اور اس میں چین کے کردار کے حوالے سے جب میں نے کچھ سال قبل کراچی میں متعین چین کے سابق قونصل جنرل چن شن من سے تصدیق چاہی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’یہ درست ہے کہ چین نے اپنا پہلا ویٹو پاکستان کے حق میں بھارت کی گھنائونی سازش کو ناکام بنانے کیلئے استعمال کیا۔‘‘ سقوط ڈھاکہ کے کچھ سال بعد بھارتی فوج کے جنرل جگجیت سنگھ اروڑا نے اپنے انٹرویو میں بھی یہ اعتراف کیا کہ ’’سقوط ڈھاکہ کے موقع پر انہیں دہلی سے یہ احکامات موصول ہوئے کہ وہ ڈھاکہ جاکر پاک فوج کے جنرل اے کے نیازی کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کریں حالانکہ اس وقت بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) میں چند ہزار بھارتی فوجیوں اور مکتی باہنی کے مسلح افراد کے مقابلے میں پاکستان کی ایک لاکھ سے زائد افواج موجود تھیں۔ جنرل جگجیت اروڑا کے بقول جب انہوں نے جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا تو میں خود بھی یہ سوچ رہا تھا کہ یہ کس طرح ممکن ہوگا کیونکہ جنرل نیازی اگر چاہتے تو پاک فوج مزید کچھ عرصہ تک اپنا دفاع جاری رکھ سکتی تھی اور اس دوران مجیب الرحمن کے ساتھ باعزت سمجھوتے کا موقع بھی نکالا جاسکتا تھا۔ افسوس کہ ہم نے یہ موقع اس وقت گنوادیا جب ذوالفقار بھٹو نے 14دسمبر 1971کو سلامتی کونسل میں پولینڈ اور دیگر ممالک کی جانب سے پیش کی گئی جنگ بندی کی قرارداد کو طیش میں آکر پھاڑ ڈالا اور واک آئوٹ کرکے چلے گئے جس کے بعد جنگ بندی اور مجیب الرحمن کے ساتھ سمجھوتے کی امیدیں ختم ہوگئیں اور 2 روز بعد جنرل نیازی کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا۔
پاکستان آج ایک بار پھر اسی طرح کے حالات سے دوچار ہے، دشمن کی نظریں ہم پر مرکوز ہیں اور وہ اپنے مذموم عزائم ،جو 1972 میں حاصل نہ کرسکا تھا، کی تکمیل کیلئے دوبارہ جال بُن رہا ہے جبکہ دوسری طرف ہمارے سیاستدان ذاتی مفادات اور اقتدار کی ہوس میں ملکی سلامتی سے کھیل رہے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کو 50 سال سے زائدکا عرصہ گزرنے کے بعد فوج کی تذلیل کی وہ بھارتی مکروہ خواہش جو اس وقت پوری نہ ہوسکی تھی، آج بانی پی ٹی آئی اُسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور ملکی سلامتی سے کھیلنا چاہتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی سوچ رکھنے والا شخص محب وطن کہلائے جانے کا مستحق ہے؟