مودی کی کامیابی، جنوبی ایشیا میں امریکی سٹریٹجک پوزیشن
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) مسلسل تیسری مرتبہ کامیابی کے باوجود سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی رہی ہے اور مودی کو اپنی دیگر اتحادی جماعتوں ہر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔درحقیقت، ایک کمزور وزیر اعظم کے طور پر مودی اپنی اندرونی کمزوری کی تلافی کے لیے امریکہ کے ساتھ اتحاد پر زیادہ انحصار کریں گے۔ مودی کی جیت دہلی اور واشنگٹن کے بڑھتے ہوئے سٹریٹجک اتحاد کے تسلسل کو یقینی بنائے گی اور چین پر قابو پانے کے لیے سٹریٹجک تعلقات کو مزید گہرا کرے گی۔
موجودہ تناظر میں جنوبی ایشیا میں چین کے مسائل بڑھ رہے ہیں کیوں کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کی سست رفتار ترقی اور چینی منصوبوں اور شہریوں پر بڑھتے ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ انڈیا-امریکہ کے گہرے ہوتے ہوئے گٹھ جوڑ اور چین اور پاکستان کے ٹوٹتے ہوئے تعلقات نے واشنگٹن کے لیے جنوبی ایشیا میں اپنے سٹریٹجک اہداف کو حاصل کرنے کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا ہے۔جنوبی ایشیا کے تیزی سے ابھرتے ہوئے معاشی اور سٹریٹجک ماحول نے امریکہ میں ایک بڑی تبدیلی کو جنم دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی طاقت کے عدم توازن، بہت بڑی معاشی تفاوتوں کے ساتھ ساتھ سٹریٹجک ترجیحات کو تبدیل کرنے کی وجہ سے، امریکہ نے پاکستان انڈیا تعلقات کے توازن کو غیر متعلق کر دیا ہے۔
چین پر قابو پانے کے امریکی طویل المدتی سٹریٹجک مفادات بھارت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان اقتصادی اور تزویراتی دونوں لحاظ سے چینی کیمپ میں جکڑا ہوا ہے۔اگست 2021 میں افغانستان سے انخلا کے بعد واشنگٹن کے لیے اسلام آباد کی سٹریٹجک اہمیت کم ہو گئی ہے۔ امریکہ افغانستان میں اپنی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتا ہے اور دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے کو طالبان کی حامی افغان پالیسی کے فطری نتیجے کے طور پر دیکھتا ہے۔اس کے ساتھ ہی، اقتصادی ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے پاکستان کے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) پر انحصار نے امریکہ کو انڈیا اور پاکستان کے تعلقات کو خراب نہ ہونے کے لیے کافی سٹریٹجک سپیس فراہم کی ہے۔
2021 میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے بحالی نے پاکستان کو افغانستان اور پاکستان کے سرحد پر دوبارہ پیدا ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ پر توجہ مرکوز رکھنے میں مدد کی اور اسی طرح انڈیا نے کشمیر سے اپنے کچھ فوجیوں کو ہمالیہ کے علاقے میں چین کی سرحد پر منتقل کیا۔امریکہ پاک-انڈیا تعلقات میں اس جمود کو برقرار رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ انڈیا کے لیے دو محاذوں کی صورت حال پیدا نہ ہو جہاں چین اور پاکستان کے ساتھ قریب قریب بیک وقت فوجی بحران پیدا نہ ہوسکے۔جنوبی ایشیا کے موجودہ سٹریٹجک ماحول نے امریکہ کو اپنے سٹریٹجک مفادات آگے بڑھانے کے لیے ایک مثالی پوزیشن میں چھوڑ دیا ہے۔ مثال کے طور پر، مذاکرات کے 20 دوروں کے باوجود انڈیا اور چین کی اپنے اختلافات کو حل کرنے میں سفارتی ناکامی نے دہلی کا واشنگٹن پر انحصار مزید گہرا کر دیا ہے۔
مزید برآں، امریکہ نے چین مخالف اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے دو محاذوں کی صورت حال میں پھنس جانے کے بھارتی خوف کو کافی استعمال کیا ہے۔اسی طرح پاکستان کی معاشی بقا آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکجز کے حصول کے لیے واشنگٹن کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھی۔پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کا بنیادی مرکز اس وقت چین جب کہ دوسرا افغانستان میں دہشت گردی ہے۔ اقتصادی محاذ پر، امریکہ نے بار بار پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے قرضوں کو چین کو ادا کرنے کے لیے استعمال نہ کرے، چین انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ شراکت کی شرائط پر دوبارہ بات چیت کرے تاکہ ان کی پیداواری لاگت کو مقامی پاور کمپنیوں کے مساوی بنایا جا سکے۔اسی طرح، افغانستان میں دہشت گردی کی لہر، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور داعش خراسان (ISK) کے حملے، امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی دوسری وضاحتی خصوصیت ہیں۔
دونوں ممالک نے اپنی پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنے کے لیے انسداد دہشت گردی کے لیے مذاکرات کیے ہیں۔ پاکستان کے لیے، ٹی ٹی پی سب سے بڑی تشویش ہے، جبکہ داعش خراسان کے افغانستان سے باہر حملے کرنے کی صلاحیت امریکہ کے لیے تشویش کا باعث ہے۔واشنگٹن کا خیال ہے کہ داعش خراسان تین سے چھ ماہ کے عرصے میں افغانستان سے امریکی سرزمین پر دہشت گرد حملہ کر سکتا ہے۔دوسری طرف، انڈیا-امریکہ تعلقات زیادہ کثیر جہتی، متنوع اور جامع ہیں، انڈیا اور امریکہ اور دونوں ہی چین کے خلاف مشترکہ سوچ رکھتے ہیں۔ اس طرح چین کی جگہ لے کر عالمی اقتصادی مرکز میں ابھرنے کی انڈیا کی خواہش نے اسے مغرب کے مزید قریب تر کیا ہے۔
لچکدار اور متنوع سپلائی چینز کے لیے اپنے گوداموں اور صنعتی مراکز کو چین سے منتقل کرنے کی مغرب کی خواہش نے انڈیا کے لیے ایک موقع پیدا کیا ہے۔ دہلی کی ابھرتی ہوئی معیشت، سستی مزدوری کی لاگت اور امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت اسے مغربی صنعتوں اور گوداموں کو منتقل کرنے کے لیے ایک مثالی جگہ بنانے میں مدد کرسکتی ہے۔مستقبل قریب میں جنوبی ایشیا کے سٹریٹجک ماحول کی روانی علاقائی اور عالمی طاقتوں کے درمیان اتحاد اور دشمنیوں کی ایک پیچیدہ صورتحال کو جنم دے گی۔اس وقت پاکستان کی مکمل توجہ اپنی معیشت کو ٹھیک کرنے پر اور عالمی طاقتوں کی رسہ کشی سے حتی الامکان گریز اور دہشت گردی کی بحالی پر قابو پانے پر ہونی چاہیے۔