اندرا گاندھی سے نریندر مودی تک: بھارتی انتخابات پر ایک رپورٹ
بھارت میں ابھی لوک سبھا کی 57 نشستوں پر انتخابات ہونا باقی ہیں لیکن وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ وہ اکثریت حاصل کر چکے ہیں۔ گمان ہوتا ہے کہ وہ اعداد اور منطق سے کام لینے کے بجائے اپنے احساسات پر بھروسہ کررہے ہیں۔گزشتہ روز جواہر لال نہرو کی 60 ویں برسی تھی۔ ان کے نواسے راجیو گاندھی کو 21 مئی 1991ء کو انتخابی مہم کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔ راجیو گاندھی نہرو-گاندھی خاندان کے آخری رکن تھے جو ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ اگر ان کے دور کی بات کی جائے تو اس دور میں بھی سیاسی منظرنامہ پیچیدہ تھا لیکن جب بات انتخابات کے انعقاد کی آتی تو اس میں تہذیب سے کام لیا جاتا تھا۔
نریندر مودی جو بہ ظاہر ڈونلڈ ٹرمپ سے متاثر لگتے ہیں، انہوں نے دانستہ طور پر بھارت کے سیاسی منظرنامے کو غیرمہذب کیسے بنادیا ہے؟ بھارت کے طویل ترین انتخابات جیسے جیسے اپنے آخری مرحلے میں داخل ہورہے ہیں، شدید گرمی میں ووٹ ڈالنے جانے والی عوام کو 1977ء میں اندرا گاندھی کی جانب سے منعقد کروائے گئے مختصر ترین بھارتی انتخابات کی یاد آرہی ہے جو 16 سے 20 مارچ تک منعقد ہوئے تھے۔ اس وقت بھی 542 نشستوں پر انتخابات ہوئے تھے لیکن اس وقت ہم نے یہ ماحول نہیں دیکھا تھا جوکہ ہم آج کے دور میں 44 دنوں پر محیط انتخابات میں دیکھ رہے ہیں کہ جہاں مخالفین پر نفرت کے تیر برسائے جارہے ہیں۔
28 جنوری کو اندرا گاندھی نے انتخابات کا اعلان کیا اور 20 جنوری کو نمایاں اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہوا جس کے نتیجے میں جنتا پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔ ان انتخابات میں دونوں فریقین کے درمیان غیرمناسب الفاظ کا تبادلہ نہیں ہوا۔ اگر ہم اس تہذیب یافتہ رویے کے پیچھے وجہ تلاش کریں تو وہ واضح ہے کہ اس وقت کے رہنما مہذب تھے یا شاید اس وقت نافذ ایمرجنسی بھی اس کی وجہ ہوسکتی ہے جس کی بنا پر انہوں نے جارحیت سے گریز کیا۔ انتخابات ختم ہونے کے اگلے ہی دن 21 مارچ کو ایمرجنسی کے خاتمے کا اعلان ہوا۔اگر اندرا گاندھی چاہتیں تو انتخابات کے نتائج ان کے خلاف آنے کے باوجود اقتدار پر قابض ہوسکتی تھیں کیونکہ ایمرجنسی کے قوانین کے تحت انہیں حکومت پر اختیارات حاصل تھے۔ لیکن اقتدار کی منتقلی میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی اور اگر کوئی مسئلہ پیش بھی آیا تو وہ اپوزیشن اتحاد جنتا پارٹی میں تھا جس کے ٹاپ لیڈران مقابلہ بازی میں مصروف تھے کہ وزیراعظم کون بنے گا۔
اگر ماضی میں دیکھا جائے تو یہ گمان ہوتا ہے کہ جیسے اس وقت عجلت میں مختلف گروہوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے اپوزیشن اتحاد بنادیا گیا تھا جبکہ ان گروہوں میں مشترک کچھ نہیں تھا۔ شمالی بھارت کی کمیونسٹ مخالف جماعتوں کے اتحاد بنانے میں عجلت کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ وہ خوفزدہ تھے۔ اگر وہ الگ الگ انتخابات لڑتے تو بھارت کی سب سے بڑی جماعت کی سربراہ کے طور پر اندرا گاندھی ایک بار پھر برسراقتدار آجاتیں۔ یاد رہے کہ کانگریس کو 1977ء کے انتخابات میں 154 نشستیں ملیں جوکہ ان کے مقابلے میں کھڑی ہونے والی کسی بھی انفرادی جماعت سے زیادہ تھیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتیں؟ نہیں اٹھاتیں اور اس کا تاثر ہمیں 1989ء میں کانگریس کے اس ردعمل سے ملا کہ جب 1984ء کے مقابلے میں 1989ء کے انتخابات میں راجیو گاندھی اپنی 400 سے زائد نشستوں پر برتری سے محروم ہوگئے۔ کانگریس نے 197 نشستیں جیتیں جبکہ اس کے حریف جنتا دل صرف 143 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوپائی۔ کمیونسٹ پسند جماعتوں اور مرکز کی پارٹی کی مدد سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 1984ء سے 1985ء تک دو نشستیں جیتیں جوکہ ایودھیا میں ایل کے ایڈوانی کے مارچ کے لیے کافی تھیں۔
ملک کی سب سے بڑی جماعت کی سربراہی کرنے کے باوجود راجیو گاندھی نے وزیراعظم بننے کی آفر رد کردی۔ اس کے بجائے انہوں نے بیان دیا کہ متنازع مینڈیٹ ان کے لیے نہیں۔ راجیو گاندھی کا یہ فیصلہ پارلیمان کی ساکھ کے حوالے سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے خاص طور پر جب ہم اس کا موازنہ 1996ء کے انتخابات اور اٹل بہاری واجپائی سے کرتے ہیں جنہوں نے کسی جماعت کو واضح اکثریت نہ ملنے کے باوجود اپنی حکومت بنانے کی کوشش کی تھی۔
اس سال واجپائی کی سربراہی میں بی جے پی پہلی بار ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری جس نے لوک سبھا میں 161 نشستیں جیتیں لیکن وہ 272 نشستوں کی واضح اکثریت جیتنے میں ناکام رہی۔ پی وی نرسمہا راؤ کی کانگریس بہت مشکل سے 140 نشستیں ہی جیت پائی۔ جس طرح ایوان غیر متوازی تھا، اٹل بہاری واجپائی جانتے تھے کہ وہ اعتماد کا ووٹ جیت نہیں پائیں گے۔ اس کے باوجود انہوں نے صدر شنکر دیال شرما کی جانب سے 13 دنوں کے لیے اقتدار سنبھالنے کی پیش کش خوشی خوشی قبول کرلی۔ صدر نے انہیں یہ موقع اس لیے دیا تھا تاکہ وہ اپنی اکثریت ثابت کرسکیں۔ یہ 13 دن پارلیمانی اقدار اور اخلاقیات پر سیاہ داغ ثابت ہوئے لیکن نریندر مودی کی فرقہ وارانہ سیاست اس پر بازی لے گئی ہے۔
اعتماد کی تحریک جیتنے کی کوئی امید نہیں تھی، ایسے میں واجپائی حکومت نے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر قواعد پر عمل درآمد کیے بغیر بدنامِ زمانہ ایرن ڈیل کرلی جس کے تحت امریکی توانائی کمپنی کو مہاراسٹر میں گیس سے چلنے والا مضر پاور پلانٹ چلانے کے لیے مالی معاونت دی گئی۔یہ تو طے تھا کہ یہ منصوبہ ناکام ہوگا اور ایسا ہوا جس کے ساتھ ہی مبینہ مالی بےضابطگیوں کے اسکینڈلز بھی سامنے آئے۔ تاہم بی جے پی نے واشنگٹن کو عندیہ دے دیا کہ بھارت کی سب سے پرانی امریکی حمایتی پارٹی سامنے آچکی ہے۔ اس کے علاوہ 1998ء میں اٹل بہاری واجپائی کے جوہری تجربات نے امریکا کو یہ واضح پیغام دیا کہ بھارت چین مخالف بیانیے میں امریکا کا اتحادی بننے کو تیار ہے۔
عدم اعتماد کے ووٹ سے پہلے ہی اٹل بہاری واجپائی نے استعفیٰ دے دیا لیکن جاتے جاتے انہوں نے جمہوری اصولوں اور حقانیت پر ایک طویل لیکچر دیا۔ تاہم بھارتی جمہوریت دھچکے سے نکل آئی اور بحال ہوگئی جس نے ایک مثال قائم کی۔جولیئس سیزر کی طرح کمیونسٹ پارٹی کے رہنما جیوتی باسو کو تخت (وزیراعظم بننے) کی پیش کش کی گئی جسے انہوں نے شائستگی سے ٹھکرا دیا۔ واجپائی کے برعکس جیوتی باسو کو سیکیولر حلقوں کی حمایت حاصل تھی لیکن انہوں نے اپنی پارٹی کے فیصلے کو اہمیت دی اور وزیراعظم بننے سے انکار کردیا۔ انہوں نے بعدازاں کمیونسٹ پارٹی کے فیصلے کو تاریخی غلطی کے طور پر بیان کیا۔
انتخابات کے مراحل ختم ہوئے بغیر ایک تہائی اکثریت جیتنے کا دعویٰ، مودی کی قیادت میں بھارت کی جمہوری کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹرمپ کی طرح انتخابی تقاریر میں غیرمناسب زبان کے استعمال کے علاوہ بھی بہت سے سنگین خدشات زیرِگردش ہیں۔ بہت سے ممتاز انتخابی تجزیہ کار شاکی ہیں کہ مودی حکومت بنانے کے لیے درکار اکثریت حاصل نہیں کرپائیں گے۔ انہیں یہ بھی خدشہ ہے کہ اگر وہ اقتدار سے محروم ہوئے تو اندرا گاندھی کی طرح وہ دوبارہ اقتدار میں نہیں آپائیں گے۔ الیکشن کمیشن میں ہیر پھیڑ اور رائے دہنگان کو پیغامات سے ظاہر ہے کہ وہ اقتدار اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے کتنے بےتاب ہیں۔آزادی کے لیے لڑنے والے جنگجو سبھاش چندر بوس کا قول مشہور ہے، ’تم مجھے خون دو، میں تمہیں آزادی دوں گا‘۔ نریندر مودی غریب طبقے کو کیا کہتے ہیں؟ ’میں نے آپ کو 5 کلو چاول دیے، اب آپ کی باری ہے کہ مجھے ووٹ دیں‘۔