اپنے فیصلوں کی مجھے بہت بڑی قیمت چکانی پڑی، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ

2627416-cjpeshawarhighcourtibrahimkhan-1712559753-823-640x480.jpg

پشاور: چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ مجھے اپنے فیصلوں کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑی ہے۔فل کورٹ ریفرنس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس محمد ابراہیم نے کہا کہ اگر کوئی سائل سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں ہوا تو قیامت کے دن حاضر ہوں۔ 31 سال کے عرصے میں 15 ہزار فیصلے دیے۔

جسٹس محمد ابراہیم نے کہا کہ 15 ہزار فیصلوں میں 509 فیصلے سپریم کورٹ میں چیلنج ہوئے، ان میں بھی 279 کو عدالت عظمیٰ نے برقرار رکھا۔ پچھلے کچھ عرصے میں ہم نے قانون کے مطابق فیصلے کیے مگر ہمیں سیاسی جماعت سے منسوب کیا گیا۔ ہمارے قانون کے مطابق فیصلوں پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ان فیصلوں کی مجھے بہت بڑی قیمت چکانی پڑی ہے۔ ہم نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کیے ہیں۔ ہائی کورٹ پر دسویں نمبر کا جج تھا جب مجھے آرمی پبلک اسکول کمیشن کی انکوائری سونپی گئی۔ کمیشن کی انکوئری میں ہم نے اے پی ایس فیملیز و دیگر گواہان کے ساتھ آرمی آفیسرز کے بیانات بھی ریکارڈ کیے۔

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ سینئر جسٹس اشتیاق ابراہیم پشاور ہائیکورٹ کے نامزد چیف جسٹس ہیں۔ ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ پشاور ہائیکورٹ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتی رہے گی۔

فل کورٹ ریفرنس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ چیف جسٹس محمد ابراہیم کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس محمد ابراہیم نے ہمیشہ انصاف کا ساتھ دیا۔ جسٹس ابراہیم بہت لوگوں کے لیے مثال ہیں۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ محمد ابراہیم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے فل کورٹ ریفرنس کی تقریب کورٹ روم نمبر ون میں منعقد ہوئی۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ محمد ابراہیم 11 اگست 2016 کو پشاور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج تعینات ہوئے۔ 1 جون 2018 کو پشاور ہائیکورٹ کے مستقل جج بنے۔ 7 جولائی 2023 کو ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس تعینات ہوئے اور 25 اگست 2023 کو ہائیکورٹ کے مستقل چیف جسٹس تعینات ہوئے۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس محمد ابراہیم خان 14 اپریل کو ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے