اندھوں کے شہر میں آئینوں کی کرچیاں: عاصمہ شیرازی کا کالم
اندھے آئینے میں بگڑے اور دھندلے چہرے ہی نظر آتے ہیں۔ ہم آئینے سے شکوہ کریں یا چہرے سے؟ آئینے تو اندھے ہیں چہرہ کیا دکھائیں گے، لفظ گونگے ہیں صدا کہاں سے اُٹھائیں گے۔ آواز کی دُنیا میں محض سائے ہیں جو لہرا رہے ہیں۔نئی اسمبلی وجود میں آ چکی ہے، کہیں سے صدا آئی ’کیا یہ جمہوریت ہے‘ اور کسی نے جواب دیا کہ ’آپ کی جمہوریت اب شروع ہوئی ہے۔‘ سوال تھا کہ بدلا کیا ہے؟ جواب تھا صرف نشستیں، دائیں والے بائیں اور بائیں والے دائیں بیٹھے ہیں۔
کل نواز شریف کے نام پر پابندی آج عمران خان کا نام لینا گُناہ۔ کل نواز شریف اور آصف زرداری پس زندان آج عمران خان جیل کی دیواروں کے پیچھے۔ کل ایک صفحے کی حکومت آج حکومت کا ایک صفحہ، کل ایک طرف سے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے آج دوسری جانب سے ’مینڈیٹ کو عزت دو‘ کی آوازیں، کل ن لیگ اور پیپلز پارٹی میڈیا پر پابندیوں کے خلاف برسر احتجاج، آج تحریک انصاف۔ گویا جمہوریت کل اُن کے ہاں مہمان تھی آج ان کے ہاں۔
شہباز شریف 16ویں اسمبلی کے 24ویں وزیراعظم ہیں مگر جو تاج انھوں نے پہنا ہے وہ کانٹوں سے بُنا ہے اور جو راستہ اختیار کیا ہے وہ دلدل۔ شہباز شریف پچھلی اسمبلی کے بھی وزیراعظم تھے اور سولہ ماہ میں روتے بسورتے بچوں کو طفل تسلیاں دینے کا مشکل کام کرتے رہے اور اب ایک بار پھر شہباز شریف اور حکومت ہاتھ میں ٹشو لیے اشک شوئی کو تیار ہیں۔محض چند دنوں بعد بیل آؤٹ پیکج کے لیے آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ لسٹ پر عملدرآمد کرنا ضروری ہو گا اور ایک فہرست ابھی سے ہاتھ تھما دی گئی جس کے مطابق گیس، بجلی سمیت ہر چیز مہنگی ہونے کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں۔
اسحاق ڈار صاحب لاکھ تیاری کریں مگر وزیر خزانہ بھی آئی ایم ایف کے مطابق ہو گا اور وزارت کے اطوار بھی آئی ایم ایف ہی طے کرے گا۔ حکومتی بنچز پر بیٹھے ’دوست‘ اور ’خیر خواہ‘ بھی طعنے ماریں گے اور اپوزیشن بنچز پر بیٹھے انصافی بہن بھائی بھی طوفان اُٹھائیں گے۔قرضوں کی ادائیگی اور نئے بجٹ کی تیاری ایک اور اہم مرحلہ ہو گا۔ ایک شہباز شریف اور مسائل کا انبار۔ مگر اس طوق کو گلے میں ڈالنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں ہوئے۔ چھوٹے بھائی کو تھپکیاں دیتے اقتدار سے دور نواز شریف ’اچھے وقتوں‘ کی سرمایہ کاری کے طور پر ایوان میں براجمان ہوں گے جبکہ آصف علی زرداری جلد ایوان صدر سدھاریں گے۔
’بڑے گھر‘ میں اُن سے اُن تمام اختیارات کی توقع رکھی جائے گی جو وہ خود واپس کر چکے ہیں، البتہ اس بار زرداری صاحب کا کردار وفاق کے ’باپ‘ سا ہو گا کہ مفاہمت کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔دوسری طرف سُنی اتحاد کونسل ہوئی تحریک انصاف اندر ہی اندر بھنگڑے ڈال رہی ہو گی کہ اُن کے گلے یہ ڈھول نہیں آیا لہٰذا جب کبھی دوبارہ انتخابات ہوئے تو وہ دو تہائی کے ساتھ واپسی کا یقین رکھے بیٹھے ہیں۔حکومت کے لیے معاشی بحران کے ساتھ ساتھ سیاسی بحران اور بے پناہ مقبولیت لیے قیدی نمبر 804 بھی اہم مسئلہ ہو گا۔ حکومت کی ’ساکھ‘ کا مسئلہ بھی اپنی جگہ اہم جبکہ اس بار اسمبلی میں بیٹھی اپوزیشن کی کوریج اور واویلا صبر کا ایک اور امتحان ہو گا۔
جناب وزیراعظم! میڈیا پر بے جا پابندیاں، پیکا قوانین کا زبان بندی کے لیے استعمال اور صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کے ہتھکنڈے ایک بڑا چیلنج بن رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ جب دفتر آئیں تو ایف آئی اے سے پوچھیں کہ اسد طور کو کس جُرم کے تحت گرفتار کیا گیا۔ دورانِ گرفتاری انکوائری کے شکار آپ خود رہے ہیں تو صحافیوں کو ہتھکڑیاں کیوں لگائی جا رہی ہیں۔جناب وزیراعظم! کیا ہی اچھا ہو کہ آپ میڈیا کی آزادی کو یقینی بنائیں اور آزادی اظہار کا ماحول فراہم کریں، خوف کا خاتمہ کریں جس میں پائیدار اور غیر جانبدار آوازیں دب گئی ہیں۔’ایکس‘ پر سے پابندی ہٹائیں اور موقع دیں کہ صحافت اپنے اندر کالی بھیڑوں کا خود احتساب کرے۔ کاش آپ آئینے صاف کرنے میں مددگار ہوں کہ مملکت کا چہرہ تو نظر آئے۔