اسلام پاکستان میں ہی کیوں خطرے میں رہتا ہے؟

syed-mujahid-ali-1-300x224.jpg

سپریم کورٹ کی طرف سے ایک احمدی شہری کو ضمانت دینے کے معاملہ پر سامنے آنے والے مباحث، الزامات، بیانات اور احتجاج کی روشنی میں یہ سمجھنے کی شدید ضرورت ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اسلام کو پاکستان میں ہی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ دنیا میں پچاس سے زائد ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ کسی حد تک اسلامی شعائر کے مطابق زندگی گزارتے ہیں لیکن وہاں سے کبھی ’اسلام خطرے میں ہے‘ یا توہین رسالت کا شور و غوغا سننے میں نہیں آتا۔

اس حوالے سے سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ ملک کے نامی علما اور سوشل میڈیا پر نفرت کی حد تک جھوٹ پھیلانے والے عناصر کی نظر میں اس بار اسلام کو خطرہ ملک کے چیف جسٹس کے قلم سے لکھے ہوئے ایک فیصلہ کی وجہ سے محسوس ہوا ہے۔ یعنی اس معاملے میں شور مچانے والا ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ صرف وہی اسلام کو درست سمجھ سکتا ہے اور اس فہم سے ماورا یا ہٹ کر اگر کوئی تفہیم سامنے لائی جائے گی تو اسے ’کفر‘ میں شمار کرنا ضروری ہے۔ اس طرز عمل کو خود پسندی اور جہالت کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ جس ملک میں چیف جسٹس کو بھی ایک شہری کی ضمانت کے معاملہ پر حکم صادر کرتے ہوئے اقلیتوں کے حقوق کی بات کرنے ’اجازت‘ نہ دی جا رہی ہو، وہاں یہ کیسے ممکن ہے کہ اقلیتی عقیدہ سے تعلق رکھنے والے لوگ خود کو محفوظ محسوس کرسکیں؟

اسی حوالے سے یہ سمجھنا بھی بے حد ضروری ہو گا کہ پاکستان کے مسلمان دنیا بھر میں مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں شدید تشویش میں مبتلا رہتے ہیں۔ وہ فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیلی جارحیت سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کے نگران وزیر قانون و انصاف احمد عرفان اسلم نے آج ہی عالمی عدالت انصاف میں مملکت پاکستان کی طرف سے فلسطینیوں کے حق میں دلائل دیے ہیں۔ حالانکہ اس تنازعہ میں پاکستان براہ راست فریق نہیں ہے اور نہ ہی فلسطین یا اسرائیل اس کے ہمسایہ ممالک ہیں۔ اس کے باوجود مسلمانوں کی محبت میں پاکستان ایک ایسی درخواست میں فریق بنا ہے جو بنیادی طور سے جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کے بارے میں دائر کی ہے۔

اسی طرح بھارت میں مسلمانوں کے حوالے سے کوئی بھی خبر سامنے آئے تو حکومت پاکستان فوری طور سے اس پر رد عمل دینا ضروری خیال کرتی ہے تاکہ پاکستانی عوام کی دلجوئی کی جا سکے۔ کشمیر کے سوال پر گزشتہ سات دہائیوں کے دوران ایک بڑے ہمسایہ ملک سے اسی ایک نکتہ پر تنازعہ مول لیا گیا ہے کہ پاکستانیوں کی تفہیم کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اکثریت میں ہیں، اس لیے یہ خطہ مسلمانوں کو ملنا چاہیے۔ اور چونکہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں نے مل کر بنایا تھا لہذا لازم ہے کہ کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ کیا جائے۔ اس بارے میں زمینی حقائق اور سفارتی صورت حال خواہ کچھ بھی ہو لیکن کوئی پاکستانی حکومت یا سیاسی پارٹی ایسا موقف سامنے نہیں لا سکتی کہ کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کی بجائے کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں۔ اگر یہ سیاسی حکمت عملی اختیار کرنے کا حوصلہ کیا جاتا تو سب سے پہلے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جسے ’آزاد کشمیر‘ کہا جاتا ہے، کو خود مختار ملک مان کر یہ اعلان کیا جاتا کہ پاکستان اپنی حدود کی توسیع میں دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ اس خطے کے باشندوں کے حق خود اختیاری کا احترام کرتا ہے۔ انہیں اپنے مستقبل کے متعلق فیصلہ کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ پاکستان اگر ایسا کوئی اقدام کر پاتا تو بھارت بھی تادیر مقبوضہ کشمیر پر قابض نہیں رہ سکتا تھا۔

تاہم دیکھا جاسکتا ہے کہ ہمارے پیش نظر نہ تو پاکستان کا مفاد ہے، نہ جغرافیائی حدود کا نئے سرے سے تعین ہمارا مطمح نظر ہے اور نہ ہی ہمیں کشمیریوں کے بنیادی حقوق سے کوئی سروکار ہے۔ ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہاں چونکہ مسلمان آباد ہیں، اس لیے انہیں کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے جو لازمی پاکستان کے ساتھ انضمام کی صورت میں ہو۔ قانونی و سفارتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اسی طرز استدلال کی وجہ سے پاکستان کا کشمیر موقف کمزور رہا ہے اور اسے عالمی سطح پر کوئی پذیرائی نہیں ملتی۔ حکومتیں ہمیں یہ بتاتی رہتی ہیں کہ مسئلہ کشمیر زندہ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں ابھی تک موثر ہیں اور بھارت کو کسی نہ کسی دن ان پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ حالانکہ ملک کا ہر سفارت کار اور سیاست دان یہ جانتا ہے کہ ایسا کبھی ممکن نہیں ہو گا۔ اس کے باوجود ہمارا نگران وزیر اعظم یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کشمیر کے لیے ہم بھارت سے تین سو سال تک بھی جنگ کر سکتے ہیں۔

اسی طرح بھارت میں مسلمانوں کے خلاف روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں کوئی بھی خبر سامنے آئے تو پاکستان میں احتجاج اور مذمت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، حالانکہ جس اصول کی بنیاد پر برصغیر تقسیم ہوا تھا، اس کے مطابق وہاں آباد مسلمانوں کو ان کے حقوق کی ضمانت کے لیے علیحدہ خطہ دے دیا گیا تھا۔ تقسیم کے وقت بھارت کا حصہ بن جانے والے جن مسلمانوں کو وہاں اپنا مستقبل غیر محفوظ یا خطرے میں دکھائی دیا، وہ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے تھے۔ اس کے بعد بھارت میں آباد مسلمانوں کے حوالے سے پاکستان کی وکالت یا پریشانی بے معنی ہوجاتی ہے۔ یوں بھی 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے ذریعے مشرقی پاکستان میں آباد مسلمانوں نے اپنے معاشی و سیاسی حقوق کے لیے متحدہ پاکستان سے علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش قائم کر لیا تھا۔ اس وقوعہ کے بعد پاکستانی حکومت یا عوام بھارت یا دنیا میں کہیں بھی خاص طور سے مسلمانوں کے حقوق کے ترجمان نہیں رہے تھے۔

اس کے باوجود ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت پاکستان میں پروان چڑھنے والی کئی نسلوں کو یوں کنڈیشن کیا گیا ہے کہ وہ خود کو نہ صرف سب سے اعلیٰ مسلمان سمجھتی ہیں بلکہ اپنے نازک کاندھوں پر یہ بوجھ اٹھا کر پروان چڑھتی ہیں کہ دنیا بھر میں ’اسلام کی حفاظت‘ کی ذمہ داری ان ہی پر عائد ہے۔ اور اگر انہوں نے تساہل سے کام لیا تو خدا نخواستہ اسلام کا نام مٹ جائے گا۔ حالانکہ پاکستان میں اسلام کی حفاظت کے نام پر جن رویوں کی پرداخت کی گئی ہے، ان کی وجہ سے ہی اسلام اور مسلمان دنیا بھر میں مطعون ہیں۔ اس کی سب سے نمایاں مثال گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مذہب کے پر پھیلائی گئی دہشت گردی ہے۔

پاکستانی سرزمین پر اسلام کے نام پر دنیا میں تباہی پھیلانے اور بزعم خویش ’کفر‘ کا خاتمہ کرنے کا عزم کرنے والے انتہاپسند دہشت گردوں کو تربیتی کیمپوں کی سہولت فراہم ہوتی رہی۔ اس پوری مدت میں دنیا بھر میں جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا یا کسی عسکری گروہ کا سراغ لگایا جاتا تو کسی نہ کسی حوالے سے اس کا تعلق پاکستان سے قائم ہوجاتا تھا۔ پاکستانی حکومت اس دوران میں ایک طرف دہشت گردی کو انسانیت کا دشمن کہتی رہی لیکن دوسری طرف ایسے دہشت گروہوں کے ساتھ تعاون کا سلسلہ بھی قائم رہا جو ہمارے خیال میں ہمارے قومی مفاد میں ’اچھے طالبان‘ بن کر معاون ہوتے۔ اس مقصد سے جو فصل کاشت کی گئی تھی اس کا ثمر کابل میں طالبان حکومت کے ساتھ پائے جانے والے موجودہ تنازعہ اور تحریک طالبان پاکستان کی مسلسل دہشت گردی کی صورت میں ہمیں مل رہا ہے۔

معاملہ کشمیر، بھارت یا فلسطین تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا میں کہیں سے بھی مسلمانوں کے حوالے سے کوئی خبر موصول ہو تو پاکستان میں طوفان برپا ہو جاتا ہے اور اسلام کو بچانے کے نام پر دین کے یہ فدائین اپنی ہی املاک کو نذر آتش کر کے یا اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کر کے مسرور و مطمئن گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ پوچھا جائے کہ گزشتہ تین چار دہائیوں کے دوران ایسے خوں ریز مظاہروں یا احتجاج کا کبھی کسی ملک نے کوئی نوٹس لیا یا پاکستان کی کوئی بات ماننے کی ضرورت محسوس کی گئی؟ چونکہ سارا معاملہ چند گروہوں کی اجارہ داری کے بارے میں ہے جو عوام کو اشتعال دلا کر اپنے مفادات سمیٹنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس لیے ایسا کوئی سوال کرنے کی نہ ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور نہ ہی کسی کو اس کی جرات ہوتی ہے۔

انگریز حکومت کے ساتھ مذاکرات میں جب ہندوستان کی تقسیم کا اصول طے ہو گیا اور پاکستان کی آئین ساز اسمبلی بھی قائم ہو چکی تھی تو 11 اگست 1947 کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے محمد علی جناح نے مذہبی رواداری پر زور دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ عقیدہ ہر فرد کا نجی معاملہ ہے، ریاست یا حکومت کا اس معاملہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہو گا۔ پاکستان میں ہر عقیدہ سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو اپنے طریقے کے مطابق زندگی گزارنے اور عبادت کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ دیکھا جائے تو جناح کا یہ اعلان تحریک پاکستان کے بنیادی اصولوں کی پاسداری کے لیے بھی اہم تھا۔ خود مختار ملک کی جد و جہد کرتے ہوئے قائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کا یہی موقف تھا کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے سیاسی، معاشی و مذہبی حقوق کے لیے علیحدہ ملک چاہتے ہیں کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ متحدہ ہندوستان میں ان کے حقوق نہیں دیے جائیں گے۔ اس لیے یہ فطری امر تھا کہ سب شہریوں کے مساوی حقوق کے نام پر قائم ہونے والے ملک کے شہریوں کو بھی یقین دلایا جاتا کہ انہیں رنگ و نسل یا عقیدہ کی تخصیص کے بغیر مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔ اور ریاست کسی قسم کے امتیاز کی اجازت نہیں دے گی۔

تاہم تاریخ کے اوراق میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جس شخص کو بابائے قوم کہا جاتا ہے، اس کے فرمودات کو اس کی موت کے 6 ماہ کے اندر بھلا دیا گیا۔ 12 مارچ 1949 کو دستور ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد کے نام سے ایک ایسی دستاویز منظور کی جو جناح کے نظریات، مساوات کے اصول اور باہمی رواداری کے تصور سے متصادم تھی۔ دستور ساز اسمبلی میں 21 مسلم ارکان نے اس قرار داد کی حمایت کی۔ جب کہ اقلیتوں کی نمائندگی کرنے والے تمام 10 ارکان نے قرار داد کی مخالفت کی۔ ان کی طرف سے قرارداد مقاصد کے متن میں مناسب ترامیم کی ہر تجویز مسترد کردی گئی تھی۔ قیام پاکستان کے ڈیڑھ سال بعد ہی مذہبی جنونیت کا منشور قرارداد مقاصد کے نام سے ریاستی پالیسی کا حصہ بنا لیا گیا۔ اس کے بعد سے عقیدہ کی بنیاد پر نفرت اور ’اسلام خطرے میں ہے‘ کا سلوگن پاکستان کا طرہ امتیاز بن گیا۔

مذہبی شدت پسندی کے اسی طرز عمل نے ملک میں جمہوری روایات کا خون کیا اور عسکری قیادت کو سیاسی معاملات میں دخیل ہونے کا راستہ فراہم کیا۔ پہلے ایوب خان کی آمریت میں کیے گئے غلط فیصلوں اور مسلط کیے گئے نظام کے نتیجہ میں ملک دو لخت ہوا۔ اس کے بعد ضیا آمریت نے رہی سہی کسر نکال دی۔ اس مکروہ دماغ فوجی آمر نے ذاتی اقتدار مستحکم کرنے کے لیے پاکستان کو انتہاپسندی اور گمراہی کے خطرناک راستے پر گامزن کیا۔ آج ملک بھر کے مولوی توہین مذہب کی جن شقات کے لیے جان لینے یا دینے پر اتر آتے ہیں، وہ اسی فوجی آمر کی مسلط کردہ ہیں لیکن پاکستانی عوام سے یہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی گئی ہے کہ کن مقاصد کے لیے ایک دوسرے کے احترام پر استوار معاشرے کو نشانہ بنایا گیا اور عوام کو چند جھوٹے اور مفسد نعروں کے پیچھے لگا کر قومی معاملات سے لاتعلق کر دیا گیا۔

اب ملک کے چیف جسٹس نے اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں قرآنی اور آئینی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس یاد دہانی پر ان کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے ہمارے ہاتھوں میں ’اسلام خطرے میں ہے‘ کے بینر تھما دیے گئے ہیں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے