جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔۔ کالم
برصغیر کے مسلمان ایمان کا پیکر اور دینی غیرت سے سرشار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نہ تو برطانوی سامراج کی آمریت قبول کی اور نہ ہی ہندو تہذہب کے سامنے سر جھکایا۔ برطانوی سامراج کے خلاف برصغیر کے مسلمانوں نے جو اسلامی انقلاب کی تحریک شروع کی تھی وہ اب بھی جاری ہے اور مطلوبہ ہدف تک نہیں پہنچی۔ اس مسلمان قوم کے دینی جذبات اور گہرے ایمان کا مشاہدہ کرتے ہوئے ہی اپنے زمانے کے عظیم انقلابی شاعر اور مصور پاکستان نے ایک ایسی آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا جہاں اسلامی اصولوں اور اقدار کا بول بالا ہو اور اسلام کے دلدادہ اس الہی دین کی تعلیمات کے مطابق خدا پسندانہ زندگی بسر کر سکیں۔ علامہ محمد اقبال رح نے نہ صرف پاکستان کا تصور پیش کیا بلکہ اس کی نظریاتی بنیادیں بھی فراہم کیں۔ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو یہ سبق بھی پڑھایا کہ کبھی بھی دین کو سیاست سے اور سیاست کو دین سے جدا نہ ہونے دینا۔
مصور پاکستان علامہ محمد اقبال رح ایک ایسی اسلامی ریاست کے خواہاں تھے جہاں سیاست اور سیاسی نظام بھی دین مبین اسلام کے زریں اصولوں پر استوار ہو۔ سیاست کا میدان طاقت اور اقتدار کی کشمکش کا میدان ہے۔ اسی میدان سے ایک ملک کا سیاسی نظام ابھر کر سامنے آتا ہے۔ سیاست کب اسلامی ہوتی ہے اور کب سیاسی فعالیت کے نتیجے میں اسلامی سیاسی نظام سامنے آتا ہے؟ نیز یہ جاننے کا کیا معیار ہے کہ موجودہ سیاست اور سیاسی نظام اسلامی ہے یا نہیں؟ ان سوالات کا جواب جاننے کیلئے ہمیں سیاست کے میدان میں سرگرم عمل کھلاڑیوں پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ عام طور پر سیاست کے میدان میں سرگرم کھلاڑی "سیاست دان” کہلاتا ہے۔ لہذا یہ جانچنے کیلئے کہ ایک ملک کی سیاست اور سیاسی نظام اسلامی ہے یا نہیں ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ وہاں سرگرم سیاست دان مسلمان ہیں یا نہیں؟
ہو سکتا ہے یہ بات کسی کو عجیب محسوس ہو کیونکہ ظاہر سی بات ہے ایک اسلامی ملک میں سرگرم سیاست دانوں کی اکثریت مسلمان ہی ہو گی۔ لیکن یہاں "مسلمان سیاست دان” سے ہماری مراد عرفی مسلمان نہیں بلکہ حقیقی مسلمان ہے۔ حقیقی مسلمان وہ ہے جس نے اپنی زندگی پر اسلام کے زریں اصول حکمفرما کر رکھے ہوں۔ جس کے "محرکات” اسلامی ہوں اور جس کے اہداف بھی اسلامی ہوں۔ محرکات بہت اہم ہیں۔ ایک سیاست دان کیوں طاقت کا حصول چاہتا ہے؟ اس میں کس قسم کے محرکات کارفرما ہیں؟ مسلمان اور ملحد سیاست دان کی پہچان کا یہ پہلا معیار ہے۔ مسلمان شخص وہ ہے جس کی تمام تر فعالیتیں خداوند متعال کی اطاعت اور اپنے دینی فرائض کی انجام دہی کیلئے انجام پاتی ہیں جبکہ ملحد شخص نفسانی خواہشات اور ہوس کا پیرو ہوتا ہے۔ مسلمان سیاست دان خدا کی عبادت کرنے اور مخلوق خدا کی خدمت کرنے کیلئے سیاسی سرگرمیاں انجام دیتا ہے جبکہ ملحد سیاست دان جاہ طلبی اور اقتدار کی ہوس کی خاطر سیاسی فعالیت میں مصروف ہوتا ہے۔
مسلمان سیاست دان اور ملحد سیاست دان میں دوسرا فرق "اہداف” کا ہے۔ مسلمان سیاست دان کی نظر میں سیاسی طاقت کا حصول حتمی مقصد نہیں ہوتا بلکہ سماجی سطح پر اپنی دینی ذمہ داریاں انجام دینے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ وہ اس لئے سیاسی طاقت کے حصول کیلئے کوشاں ہوتا ہے تاکہ معاشرے میں ظلم و ستم کا خاتمہ کر سکے اور حقدار کو اس کا حق دلا سکے۔ مسلمان سیاست دان اسلامی اقدار کی حفاظت کیلئے سیاسی طاقت کا خواہاں ہوتا ہے۔ وہ معاشرے میں اسلامی اصولوں اور تعلیمات کا بول بالا کرنے کے درپے ہوتا ہے۔ دوسری طرف ملحد اور بے دین سیاست دان کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ اپنی اقتدار کی ہوس مٹانا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی فلسفی سیاست کے میدان میں سرگرم سیاست دانوں کو بھیڑیے سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ معروف مغربی فلسفی "ہابز” کا یہ جملہ مشہور ہے کہ "انسان ایکدوسرے کیلئے بھیڑیے کی مانند ہیں”
بھیڑیے جب بھوکے ہوتے ہیں اور انہیں کھانے کیلئے کچھ نہیں ملتا تو وہ ایک دائرے میں بیٹھ جاتے ہیں اور جیسے ہی کوئی سوتا ہے سب اسے چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں۔ لہذا ہر بھیڑیا کوشش کرتا ہے کہ وہ اگر سوئے بھی تو آنکھیں کھول کر سوئے تاکہ دوسروں کو معلوم نہ ہو سکے کہ وہ سو گیا ہے۔ الحاد اور بے دینی کی تہذیب بھیڑیوں والی تہذہب ہے۔ ایسی تہذیب کے تربیت یافتہ سیاست دان بھی بھیڑیے کی مانند ہوتے ہیں جن کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ اقتدار کا حصول ہوتا ہے اور اس کی خاطر وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ ان کی نظر میں اخلاقی، انسانی اور دینی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور ہدف ذریعے کو جائز بنا دیتا ہے۔ لیکن مسلمان سیاست دان ایسا نہیں ہوتا۔ وہ اسلامی تہذیب کا تربیت یافتہ ہوتا ہے۔ اس کی نظر میں اخلاقی، دینی اور انسانی اقدار ہی سب کچھ ہوتی ہیں اور وہ ان کی خاطر سیاسی طاقت تو کیا اپنا سب کچھ حتی اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہوتا ہے۔
پس ہم دیکھتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے جس انقلابی تحریک کا آغاز کیا تھا اور مصور پاکستان نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا، وہ انقلابی تحریک بھی اور وہ خواب بھی ابھی ادھورا ہے۔ آج ہمیں پاکستان کے سیاسی میدان میں سرگرم کھلاڑی مسلمان کم اور ملحد اور بے دین زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ آج ہم پاکستان کے سیاسی نظام میں انسان نما بھیڑیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جن کی نظر میں سب کچھ اقتدار کی ہوس ہے اور وہ اسے مٹانے کیلئے نہ تو اخلاقی، نہ انسانی اور نہ ہی دینی کسی قسم کی اقدار کو پہچاننا تو دور کی بات دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے۔ 1947ء میں قیام پاکستان اسلامی جذبے اور ایمان کی حرارت سے سرشار عوام کی قربانیوں اور جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ لیکن اس کے بعد یہی پاکستان اقتدار کی ہوس میں مبتلا بے دین سیاسی کھلاڑیوں کا اکھاڑہ بن گیا۔ پاکستان کی بنیاد رکھنے والے مومن اور انقلابی عوام کو سیاست کے کھیل سے بے دخل کر دیا گیا اور اس میدان پر بھیڑیا نما انسانوں کی حکمرانی ہو گئی۔ یہ درحقیقت وہی ناگوار حادثہ رونما ہوا جس کے خطرے سے مصور پاکستان علامہ محمد اقبال رح نے آگاہ کیا تھا اور کہا تھا کہ "جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی”
اب راہ حل کیا ہے؟ اس گھمبیر صورتحال سے نجات کیونکر ممکن ہے؟ راہ حل یہ ہے کہ ایمان کے جذبے سے سرشار عوام اپنی شروع کردہ اسلامی انقلابی تحریک کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ سیاست کے میدان اور سیاسی نظام کو ملحد اور بے دین سیاسی کھلاڑیوں کیلئے خالی مت چھوڑیں۔ اپنے اندر اس قدر سیاسی بصیرت پیدا کریں کہ حقیقی مسلمان سیاست دانوں اور مسلمان نما ملحد اور بے دین سیاست دانوں کو پہچان سکیں۔ اگلا مرحلہ ملحد اور بے دین سیاسی کھلاڑیوں کو سیاست کے میدان سے نکال باہر کرنے کی جدوجہد کا ہے۔ یہ درحقیقت ایک مسلمان کی دینی ذمہ داری ہے اور دین مبین اسلام کی نظر میں ایک اسلامی معاشرے پر حکمفرما سیاسی نظام میں عوام کا کردار ہے۔ یہ درحقیقت "اسلامی جمہوریت” ہے۔ اسلامی جمہوریت یعنی اسلامی اصولوں اور تعلیمات کی روشنی میں سیاست کے میدان اور سیاسی نظام میں مسلمان عوام کا کردار۔ اس کردار کی بنیاد شرعی ذمہ داریاں ہیں اور اس کا نتیجہ اسلامی سیاست اور اسلامی سیاسی نظام کا قیام ہے۔