ابابیلوں کا انتظار: محمد حنیف کا کالم
جب سیاسی تجزیے سُن کر آپ کو مستقبل کا منظر نامہ سمجھ آنے کی بجائے ذہن اور پراگندہ ہو جائے، جب قوم کے سیانے افراد کے سیانے تبصرے سُن کر لگے کہ یہ تو پہلے بھی سُنا ہوا ہے تو کبھی کبھی نماز جمعہ سے پہلے دیے جانے والے خطبے اور نماز کے بعد کی جانے والی دُعائیں بھی سُن لینی چاہییں۔
بچپن کے سُنے ہوئے خطبے اور دُعائیں اب بھی یاد ہیں۔ اُن میں ایمان کی سلامتی کے ساتھ ساتھ فصلوں کو موسم کی شدّت سے اور مویشیوں کی وبائی بیماریوں سے حفاظت کی دُعائیں مانگی جاتی تھیں۔
پھر ممبر سے قوم کی رہنمائی فرمانے والوں کو اپنی طاقت کا احساس ہوا تو مُلک کے سیاسی حالات پر بھی پہلے اشاروں کنایوں میں اور پھر کُھل کر بات ہونے لگی۔ جو مولانا حضرات جہاد کی تبلیغ یا فرقہ وارانہ موضوعات سے گُریز کرتے تھے وہ بھی ہمارے حکمرانوں کی بیخ کُنی کے لیے دوچار واقعات اسلامی تاریخ سے ڈھونڈ لیتے تھے۔ جنرل مشرف کے زمانے میں افغانستان میں طالبان کی حمایت میں کُھل کر خطبے اور دُعائیں ہونے لگیں تو جنرل مشرف کہیں سے روشن خیالی کی اصطلاح ڈھونڈ لائے۔ ہمارے گاؤں کی جامع مسجد کے خطیب جو سیاسی موضوعات سے اجتناب کرتے تھے انھوں نے بھی اپنی ہر دعا میں فرمانا شروع کیا کہ ’یااللہ اس قوم کو روشن خیالی کے عذاب سے محفوظ رکھ۔‘ جس جذبے کے ساتھ نمازی آمین، ثمہ آمین کہتے تھے تو لگتا تھا کہ اُنھیں اس بات کی سمجھ ہے کہ مولانا ذکر جنرل مشرف کا ہی کر رہے ہیں۔
اس جمعہ کو ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کی مسجد میں امام کا اصلی نشانہ ’اسرائیل اور اُس کے حواری تھے جو نہتے بچوں کو فضائی بمباری سے نیست و نابود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔ غیبی مدد کی دُعا ہوئی اور کہا گیا کہ یااللہ اب تو ابابیلیں بھیج دے۔ مُلک کی معشیت کی بہتری کی بات ہوئی۔ پھر شاید مولانا کو لگا کہ معیشت کی سمت درست کرنے کے لیے ابابیلیں نہیں آئیں گی تو انھوں نے دُعا مانگی کہ ’اللہ ہمارے حکمرانوں کو عقل دے۔‘ کُچھ لوگوں نے دھیمی آواز میں آمین کہا جیسے انھیں خود بھی اپنی دُعا کی قبولیت پر یقین نہ ہو۔ میرے جیسے سب نیم پڑھے لکھے لوگ ایک دوسرے کو بتاتے آئے ہیں کہ ایک الیکشن، پورا نہیں تو نیم شفاف الیکشن ہی اس مُلک کے مسائل کا حل ہے۔ حل نہیں بھی ہے تو اُس کی طرف اُٹھایا جانے والا پہلا قدم ہے۔ اگر کُچھ بھی نہیں ہے تو عوام کے دلوں میں پھیلی تلخیوں کا مداوا کرے گا۔بجلی، گیس، آٹے، دال کے مسائل حل نہیں ہوں گے لیکن عوام کو تھوڑی تسلّی ہو گی کہ انھوں نے اپنا غصّہ نکال لیا ہے، یا اگر کسی اُمیدوار پر دل آیا ہوا تھا تو اُسے اپنا ووٹ دے کر اپنی تمنا پوری کر لی ہے۔ خدا خدا کر کے انتخاب ہو گیا۔ جو نتیجہ آیا اُس نے زخموں پر مرہم کا کام کرنے کی بجائے نمک چھڑکا ہے۔ جیت کا دعویٰ کرنے والے بھی غضب ناک بنے اور ہارنے والے بھی سڑکوں پر۔