ماہ رنگی بلوچستان
آج سے دس یا پندرہ سال قبل اگر کوئی یہ کہتا کہ بلوچ قومی تحریک، بلوچ سیاسی مزاحمت، بلوچ شناخت اور حقوق کی جنگ، بلوچستان کا مسئلہ اور بلوچ قومی سوال کے حل تلاش کرنے کی جدوجہد کی بھاگ ڈور بلوچ خواتین کے ہاتھوں میں ہوگی تو یقیناً اس بات کو کوئی سنجیدگی سے نہ لیتا اور یہ کہتا کہ بلوچ خواتین بلوچوں کی غیرت ہیں، بلوچ مرد اپنی خواتین کی حفاظت سمیت انکے حقوق و آزادی کی خاطر جدوجہد بھی کررہے ہیں۔ بلوچ خواتین چادر و چاردیواری سے باہر نہیں نکلتی اگر نکلتی ہیں تو صرف اس حد تک کے وہ ہماری تحریک میں ادنیٰ سا کردار ادا کرسکیں، لیکن تحریک کی بھاگ ڈور سنبھالنا اس خونخوار ریاست سے مقابلہ کرنا، انکے بس کی بات نہیں۔
مگر آج کا بلوچستان، موجودہ بلوچستان، ماہ رنگی بلوچستان، سمی دین کا بلوچستان، ڈاکٹر صبیحہ کا بلوچستان، بیبو کا بلوچستان، سعدیہ بلوچ کا بلوچستان، ماہ زیب کا بلوچستان، سیما کا بلوچستان، انیسہ کا بلوچستان، سائرہ کا بلوچستان، راج بی بی کا بلوچستان، نجمہ کا بلوچستان، کامریڈ فاطمہ کا بلوچستان، برمش کا بلوچستان وہ بلوچستان ہے جہاں بلوچ عورت نہ صرف بلوچوں کے غیرت و ننگ کی پاسبانی کررہی ہیں۔ بلکہ وہ سالوں سے بغیر کسی تھکاوٹ کسی شکایت اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کی جدوجہد کررہی ہیں۔ وہ ماورائے عدالت جعلی مقابلوں میں قتل کیے گئے سیاسی کارکنان، طالب علموں، سماجی کارکنان اور سماج کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو انصاف فرائم کرنے کی خاطر سراپا احتجاج ہیں۔ وہ سی ٹی ڈی، ایف سی، ایم آئی، آئی ایس آئی، فوج اور بلوچ نسل کشی میں ملوث دیگر اداروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جبری گمشدہ افراد کی بازیابی، بلوچ قتل عام کی روک تھام اور بلوچ سرزمین پر بلوچوں کی حکمرانی کی جدوجہد کی دیدہ دلیری سے رہنمائی کررہی ہیں۔
بلوچ خواتین اپنے اوپر اور بھائیوں پر بنائے گئے جعلی کیسز کیخلاف بلوچوں کو ڈرانے، دھمکانے کیخلاف منظم انداز میں جدوجہد کررہی ہیں، جسکی پاداش میں کبھی انہیں اسلام آباد پولیس، کبھی سندھ میں کراچی پولیس، تو کبھی کوئٹہ پولیس بغیر کسی وارنٹ کے گرفتار کرکے اپنے مؤقف سے دستبردار کرانے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن بولان کی پہاڑوں جیسی حوصلے والی بلوچ خواتین نے نہ صرف ہر ایک جبر کا دیدہ دلیری سے مقابلہ کیا بلکہ انکے حوصلے، انکی ہمت، انکی بہادری، انکی کمٹمنٹ، انکی سیاسی شعور و نظریات نے پاکستانی ریاستی مشینری کو ذہنی طور پر اس قدر مفلوج کردیا ہے کہ وہ صبح شام بلوچ خواتین کیخلاف جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈہ کرتے ہوئے اپنی ناکامی کا ثبوت پیش کررہے ہیں۔
موجودہ بلوچستان جسے ماہ رنگی بلوچستان کہنا غلط نہیں ہوگا جہاں بلوچ شیرزالوں نے بلوچوں کے سیاسی اور بنیادی انسانی حقوق سمیت انکے آزادی اظہار و قومی شناخت کی جدوجہد کا بیڑا اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ ماہ رنگی بلوچستان میں بلوچ عورتیں یہ جانتی ہیں کہ انہیں اپنے حقوق کی خاطر آواز اٹھانی ہوگی، ماہ رنگی بلوچستان وہ سماجی تبدیلی ہے جہاں صنفی بنیادوں پر قائم فرق ختم ہوجاتا ہے اور بلوچ سماج میں موجود ہر ایک فرد جو قابل ہو، باشعور ہو، قومی درد کو سمجھتا ہو، محسوس کرتا ہو، جیتا ہو، اس درد کے مداوا کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا چکا ہو، ایسے شخص کو بلوچ قوم اپنا قومی دستار، اپنا قومی سردار، اپنا قومی رہنماہ، اپنا قومی مسیحا، اپنا نجات دہندہ، اپنے آنی والی نسلوں کی بہترین اور روشن مستقبل کا ضامن مانتے ہیں۔
ماہ رنگی بلوچستان کا قیام تاریخ کے سنہرے پنوں پر وہ یادگار و سازگار لمحہ ہے، جسے بلوچوں کی موجودہ نسل اپنے آنکھوں کے سامنے بنتا ہوا، ابھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں، جسے وہ جی رہے ہیں، جسے وہ محسوس کررہے ہیں جس کی وہ گواہی دے رہے ہیں۔ یہ لمحہ بلوچوں کی خوشحالی، انکی قومی شناخت اور اپنی سرزمین پر حاکمیت کی نوید ہے۔
ماہ رنگی بلوچستان پر جب بھی ریسرچ کی جائیگی جب بھی اس پر لکھا جائیگا، جب اس کا مشاہدہ کیا جائیگا، تو یہ اندازہ ہوگا کہ کس طرح ایک بلوچ دختر نے اپنی سیاسی شعور ؤ قومی بیداری سے اپنی پوری قوم کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کردیا تھا۔ کس طرح اس کی ایک پکار نے لاکھوں لوگوں کو سرزمینِ بلوچستان اور دیگر بلوچ علاقوں میں اپنی قومی بقاء اور شناخت کی خاطر جدوجہد پر آمادہ کیا تھا۔ کس طرح اس نے دشمن کے حصار میں بیٹھ کر اپنی قوم کی رہنمائی کرتے ہوئے انکے دلوں میں موجود ریاستی ظلم، جبر و بربریت کے اس خطرناک ڈر و خوف کو اکھاڑ پھینکا تھا جو ریاستی فورسز کی جانب سے انسانیت سوز مظالم کی صورت میں لوگوں میں دلوں میں بٹھائی گئی تھیں۔
ماہ رنگی بلوچستان کے کردار ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ، سیما بلوچ و ڈاکٹر صبیحہ بلوچ سمیت دیگر تمام بلوچ خواتین جو اس تحریک کا حصہ ہیں وہ بلوچ مزاحمتی تحریک کی نہ صرف سرخیل بن چکی ہیں، بلکہ مظلوم اقواموں کی خاطر مزاحمت کا استعارہ بھی بن چکی ہیں۔