پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا آغاز کیسے ہوا؟
پاکستان کے شہری ہر سال پانچ فروری کو کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن مناتے ہیں۔اس دن کی مناسبت سے پاکستان کو کشمیر سے ملانے والے راستوں اور دیگر اہم جگہوں پر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنانے کے ساتھ ساتھ جلسے جلوس اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں۔دنیا بھر میں مقیم پاکستانی اور کشمیری یوم یکجہتی کو ایک خاص دن کے طور پر دیکھتے ہیں۔
کشمیری تاریخ دان سید سلیم گردیزی کے مطابق کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کی تاریخ بہت پرانی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’پہلی بار 1931 میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن پورے ہندوستان میں منایا گیا۔
مہاراجہ ہری کے خلاف اٹھنے والی سیاسی تحریک کے ایک ناخوشگوار واقعے کے دوران 21 کشمیریوں کی موت کے بعد علامہ اقبال نے 14 اگست، 1931 کو ہندوستان بھر میں کشمیریوں سے یکجہتی کا دن منانے کی کال دی۔سلیم گردیزی نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’28 فروری، 1975 کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل پر کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن منایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے نام سے منانے کا آغاز 1990 میں سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے کیا۔اس وقت پنجاب میں نواز شریف وزیر اعلیٰ جبکہ مرکز میں بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں۔ قاضی حسین کی کال دینے کے بعد دونوں نے اس کال کی حمایت کی اور یوں پانچ فروری، 1990 کو پہلی بار سرکاری سطح پر منانے کا آغاز ہوا۔‘پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں طالبہ سنیہ طارق کا کہنا ہے کہ ’انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیریوں کو آزادی اظہار رائے نہیں دی جا رہی جس کی وجہ سے وہ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر یہ دن مناتے ہیں۔‘
ایک اور خاتون لاریب سفیر قریشی کے مطابق ’یہ یکجہتی انسانیت کی بنیاد پر ہے ناکہ کسی مذہب یا علاقے کی بنیاد پر۔‘پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہری محمود گیلانی نے کہا کہ ’لائن آف کنٹرول کے اس پار کشمیری عملی جدو جہد کر رہے ہیں اور اس عملی جدو جہد میں ہم انہیں حوصلہ اور اپنے ساتھ کا یقین دلانے کے لیے یہ دن مناتے ہیں۔‘
کشمیری شاعر ابراہیم گل نے کہا کہ یوم یکجہتی کشمیر منانے کی روایت پرانی ہے مگر ’آج میں بحیثیت کشمیری میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ اس اظہار یکجہتی میں کچھ فرق آ چکا ہے، اس میں کمی آ گئی ہے۔
انہوں نے پاکستان کے اداروں سے مطالبہ کیا کہ ’اس دفعہ بھرپور طریقے سے یکجہتی کا اظہار کیا جائے تاکہ اس پار یہ پیغام جائے کہ ہم ان کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
کشمیری طالب علم خواجہ مدثر اقبال نے کہا کہ وہ لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب رہنے والے کشمیریوں کے ساتھ، جو ریاستی جبر برداشت کر رہے ہیں، اظہار یکجہتی کرتے ہوئے یقین دلاتے ہیں کہ ’ہم ان کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔‘