افغانستان میں القاعدہ کا کوئی رکن نہیں، طالبان نے اقوام متحدہ کا دعویٰ مسترد کردیا

340026-930067917.jpg

طالبان حکومت نے جمعرات کو اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ افغانستان میں القاعدہ اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں شدت پسند کارروائیوں کے حوالے سے تعلقات بڑھ گئے ہیں، جو پاکستان میں بھی حملوں کا باعث بن رہے ہیں۔

29 جنوری کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی رپورٹ میں افغانستان کے اندر شدت پسند تنظیموں کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ملک میں القاعدہ کے کیمپ میں ٹی ٹی پی خود کش حملہ آوروں کی تربیت کی جاتی ہے۔

تاہم افغانستان کی طالبان حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا کو جاری ایک بیان میں القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی کو ’جھوٹ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بد قسمتی سے اقوام متحدہ نے افغان حکومت کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈہ شروع کیا ہے۔

انہوں نے کہا: ’افغانستان میں القاعدہ کا کوئی رکن موجود نہیں۔‘

بیان کے مطابق: ’ہمیں اندازہ ہے کہ اقوام متحدہ کے کچھ ممالک کو افغانستان میں شکست ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ افغانستان کے ساتھ تعصب کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اس نوعیت کی افواہیں پھیلا رہے ہیں۔وہ ممالک جن کے افغان حکومت سے اچھے تعلقات ہیں، وہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کو ہمارے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں القاعدہ سے متعلق کوئی گروہ نہیں اور ’نہ ہی امارت اسلامیہ کسی کو اجازت دیتی ہے کہ وہ افغانستان کی سر زمین کسی کے خلاف استعمال کرے۔

چترال حملے میں القاعدہ نے ٹی ٹی پی کو جنگجو فراہم کیے: اقوام متحدہ رپورٹ

سکیورٹی کونسل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ افغان طالبان اور القاعدہ کا قریبی تعلق ہے اور القاعدہ کے سینیئر رہنما افغانستان میں مقیم ہیں اور وہاں آٹھ نئے تربیتی کیمپس قائم کیے گئے ہیں جس میں ایک حاکم المصری کیمپ بھی ہے۔رپورٹ کے مطابق: ’حاکم المصری کیمپ افغانستان کے صوبہ کنڑ میں قائم کیا گیا ہے جہاں پر ٹی ٹی پی کے خود کش حملہ آوروں کی تربیت کی جاتی ہے۔اس کے علاوہ القاعدہ کے پانچ مدرسے لغمان، کنڑ، ننگرہار، نورستان اور پروان صوبوں میں قائم ہیں۔رپورٹ کے مطابق: ’پاکستان کے ضلع چترال میں گذشتہ سال ستمبر میں سرحد پار حملے میں القاعدہ نے ٹی ٹی پی کو مسلح جنگجو فراہم کیے تھے جس سے ٹی ٹی پی کا مورال بڑھ گیا۔

پاکستان کے دباؤ پر افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے 70 سے 200 جنگجوؤں کو سرحدی علاقوں سے دوسرے علاقوں میں منتقل کیا تھا۔تاہم رپورٹ کے مطابق بعض مواقع پر افغان طالبان کی جانب سے القاعدہ کی سرگرمیوں کو بند کرنے پر دونوں کے تعلقات خراب ہوئے جبکہ افغانستان میں موجود القاعدہ کے رہنماؤں کی جانب سے بین الاقوامی سطح پرمدد فراہم نہیں کی جا رہی۔

رپورٹ کے مطابق: ’القاعدہ افغانستان نے امریکہ کی جانب سے ہدف بنائے جانے کے خوف سے اپنی تمام گاڑیوں کو ٹی ٹی پی کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا اور مرکزی القاعدہ کی رضامندی پر القاعدہ افغانستان کے 15 کمانڈرز، ٹی ٹی پی کو پاکستان پر حملے کرانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔اسی رپورٹ میں مزید لکھا گیا کہ افغان طالبان کی دباؤ کے باوجود ٹی ٹی پی کے سرحد پار حملے جاری ہیں اور القاعدہ کے عکسریت پسند سرحد پار حملوں میں معاونت فراہم کرتے ہیں۔اسی طرح ٹی ٹی پی میں افغان طالبان کے جنگجو بھی شامل ہوئے اور وہ اس شمولیت کو ’مذہبی فریضہ‘ سمجھتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی نے پچھلے سال اکتوبر کے وسط میں خیبر پختونخوا میں ایک نیا اڈا بھی قائم کیا ’جس میں ٹی ٹی پی کے 66 خود کش حملہ آوروں کو تربیت دی گئی۔ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی میں شامل ہوگئے ہیں۔

شدت پسند تنظیموں کی فنڈنگ پر رپورٹ میں انکشافات

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں شدت پسند تنظیموں کی فنڈنگ کے حوالے سے بھی تفصیلات دی گئی ہیں جس میں ٹی ٹی پی اور داعش کا ذکر موجود ہے۔رپورٹ کے مطابق افغان طالبان نے ٹی ٹی پی پر فنڈز کے کنٹرول کی صورت میں کچھ دباؤ تو ڈالا لیکن ساتھ ہی ٹی ٹی پی کے امیر نور ولی محسود کو 35 لاکھ افغانی (تقریباً 80 لاکھ پاکستانی روپے) ماہانہ دیے گئے اور ٹی ٹی پی کو کمائی کے ذرائع تلاش کرنے کا بتایا گیا۔ٹی ٹی پی کی جانب سے اسلحے کے استعمال کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹی ٹی پی کے سینیئر رہنماؤں کو 15 عدد اسلحے کا اجازت نامے جبکہ جونیئر جنگجوؤں کو پانچ کی تعداد میں اسلحہ رکھنے کی اجازت دی گئی۔

رپورٹ کے مطابق، ’افغان طالبان کی مدد کی وجہ سے ٹی ٹی پی کی جنگجوؤں کی داعش میں جانے کی اثر کو کم کرنے کے لیے کیا گیا اور بعض رپورٹس یہ بھی ہے کہ داعش ٹی ٹی پی سے اسلحہ لیتے ہیں۔رپورٹ میں بلوچستان کی شدت پسند تنظیم مجید بریگیڈ کا ذکر بھی موجود ہے کہ اس میں 70 سے 80 افراد شامل ہیں جو خصوصی طور پر خواتین خود کش بمباروں کی تربیت پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔

رپورٹ میں شامل بعض ممالک کی رائے میں مجید بریگیڈ کے داعش اور ٹی ٹی پی کے ساتھ تعلقات ہیں اور مشترکہ آپریشنز، خفیہ معلومات کے تبادلے، اور اسلحے کا تبادلہ بھی کرتے ہیں، تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات اکھٹا کرنے کی ضرورت ہے۔داعش کے حوالے سے بتایا گیا کہ افغان طالبان نے داعش کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں بعض علاقوں کو خالی کرنے اور حملوں میں کمی کے باوجود، داعش اب بھی خطے کے لیے ایک خطرہ ہے۔

’داعش کے کچھ لوگ افغان طالبان میں بھی شامل ہو چکے جبکہ بعض طالبان رہنماؤں کے مابین داعش کے ساتھ رویہ اختیار کرنے پر اختلافات بھی ہیں کہ ان سے کیسے ڈیل کیا جائے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ داعش خراسان کے لیڈر ثنااللہ غفاری زندہ ہیں۔ یاد رہے کہ ثنااللہ غفاری کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ انہیں جماعت الاحرار کے کنڑ میں قائم تربیتی کیمپ سے باہر آتے ہوئے ہدف بنایا گیا تھا جس میں وہ ممکنہ طور پر زخمی ہوئے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے