ایسے نہیں چل سکتا!!

213_104611_reporter.jpg

ابھی کوئی بھی نہیں بھولا ہوگا کہ کل تک باجوہ ڈاکٹرائن کا زور و شور تھا اس پر عملدرآمد ہوا پراجیکٹ عمران چلا پھر اس کی بساط الٹا دی گئی یعنی ڈاکٹرائن کے ذریعے جو ہوا اسے حرف غلط کی طرح مٹایا جا رہا ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ BBD ڈاکٹرائن شروع ہو چکا ہے۔ یہ ایک فوکسڈ ڈاکٹرائن ہے ۔ بی بی ڈی دراصل بلاسٹ، بلڈوز اور ڈسٹرائے کا مخفف ہے جس کا مطلب ہے کہ اسمگلنگ، ڈالر کنٹرول، چینی کی غیر قانونی برآمد کو، دھماکے، زبردست سختی اور تباہ کرکے ختم کیا جائے۔ اس ڈاکٹرائن کے ایک حامی نے بتایا کہ تھوڑے ہی عرصے میں اسمگلنگ پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے، ڈالر کی قیمت میں بتدریج کمی اور ٹھہرائو دیکھا جارہا ہے، چینی کی قیمت پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ سے گہرے تعلقات بنانے کی سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے۔

اس حامی کا کہنا ہے اس ڈاکٹرائن کے اہداف ملک گیر ہیں بالآخر ملک کے فائدے پر منتج ہوں گے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جنرل باجوہ کے ابتدائی دنوں میں مجھے ان سے اور جنرل بلال اکبر سے تفصیلی ملاقاتوں کا موقع ملا تھا تو تب وہ نئی ڈاکٹرائن کے بارے میں بڑے پُرجوش تھے۔ باجوہ ڈاکٹرائن کا اس وقت کا سب سے پہلا نکتہ ججوں کا دفاع تھا اور ہر ملاقات میں کہا جاتا تھا کہ ججوں کے خلاف بنائے گئے پارلیمنٹ کے کسی بھی قانون کو یا حکومت کے اقدام کے خلاف مزاحمت کی جائے گی۔ دراصل اسی بیانیے کی آڑ میں جسٹس کھوسہ، جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس عظمت سعید کو یہ شہ ملی کہ وہ اس وقت کی حکمران جماعت نون لیگ کے خلاف کھل کر فیصلے کریں۔

اب ماضی کی ان ساری کارروائیوں کو رد کرکے نئے فیصلے ہو رہے ہیں گویا باجوہ ڈاکٹرائن میں جو عدالتی فیصلے ہوئے تھے اور جنہیں اس وقت کی مقتدرہ کی حمایت حاصل رہی تھی اب آج کی مقتدرہ اس ڈاکٹرائن کے بالکل مخالف چل کر ان فیصلوں کو سراہ رہی ہے جو اب رد ہوکر ردی کی ٹوکری میں جا رہے ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ موجودہ ڈاکٹرائن کے سیاسی نتائج کیا نکلیں گے، مجھے خوف ہے کہ جو کچھ ہوا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے یہ ایسے نہیں چل سکتا۔ موجودہ ڈاکٹرائن میں جو سب سے بڑی خامی مجھے نظر آ رہی ہے وہ کسی مرد مہربان کا نہ ہونا ہے۔ دنیا بھر کی تاریخ اٹھا لیں، میکاولی، چانکیہ اور چینی فلاسفر سن زو کے خیالات کا جائزہ لے لیں جب ریاست جبر کرتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ پیار کا راستہ بھی کھولنا پڑتا ہے، موجودہ دور کی سیاست میں ریاست کی چھڑی تو ہر طرف نظر آ رہی ہے، گاجر کا دور دور تک وجود نہیں، انسانوں کو ڈیل کرنا ہے تو صرف چھڑی کام نہیں آتی۔ جنرل مشرف کے دور کو ذہن میں لائیں ایک طرف نیب، پولیس، مقتدرہ اور عدلیہ سیاسی مخالفین کے لئے چھڑی بنے ہوئے تھے مگر دوسری طرف جنرل مشرف کے دست راست طارق عزیز ان مخالفوں کے لئے مرد مہربان بنے ہوئے تھے۔ چودھری ہوں یا وٹو، ہمایوں اختر ہوں یا آج کے کئی بڑے بڑے سب اسی گاجر کی پناہ کے راستے سے ڈرائی کلین ہوکر سیاست میں بڑے بڑے عہدے پاتے رہے۔ موجودہ دور میں چھڑی نے بڑے ’’کمالات‘‘ دکھائے ۔ پی ٹی آئی سے لوگ دستبردار ہوئے مگر انہیں کوئی گاجر نہ مل سکی، کوئی مرد مہربان نہ مل سکا، کوئی طارق عزیز نہیں ہے جو ’’بارگاہ اعلیٰ‘‘ میں ان بے چاروں کی سفارش کرکے ان کی سیاست بحال کروا سکے۔ شیخ رشید ہوں یا چودھری فواد، فیاض الحسن چوہان ہوں یا اور بہت سے لوگ ان کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اس کے بعد کون ہوگا جو تاریخ میں موجودہ ڈاکٹرائن کی خیر خواہی کی گواہی دے گا۔

یہ درست ہوگا کہ موجودہ ڈاکٹرائن ریاست اور معیشت کی چولیں سیدھی کررہا ہے لیکن ریاست کا اہم ترین حصہ ملک کا سیاسی نظام، سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت ہوتی ہے اگر اس کے لئے موجودہ ڈاکٹرائن کے پاس کوئی مرد مہربان موجود نہیں ہے تو یہ نظام کیسے چل پائے گا؟مجھے ذاتی طور پر سیاسی وفادار اچھے لگتے ہیں لیکن مجھے ان لوگوں سے ہمدردی ہے جو خوف، ڈر یا پھر اپنی مرضی سے ریاست کی چھایا چھتری میں آئے مگر اب نہ کوئی ان کا حال پوچھ رہا ہے اور نہ ان کی کسی کو فکر ہے، کیا ڈاکٹرائن کو صرف بلاسٹ، بلڈوز اور تباہ ہی کرنا ہے یا کچھ نیا بنانا بھی ہے؟ میری حقیر رائے میں اگر صرف عمارت گرانا مقصود ہے تو یہ کوئی اچھا ہدف نہیں اس کی جگہ اگر نئی اور بہتر عمارت کی تعمیر کی منصوبہ بندی شامل نہیں تو منصوبہ ہی ناقص ہے۔

ایسے اس لئے نہیں چل سکتا کہ اہداف واضح نہ ہوں تو عمارت ٹیڑھی میٹرھی اور ناقص ہوگی جو چل نہ سکے گی۔ ضیا الحق نے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لئے کیا کچھ کیا؟ دو غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات ایک غیر جماعتی انتخابات کروائے،لوگوں کے کلے مضبوط کئے، غیر سیاسی لوگوں کی ایک پوری ٹیم تیار کی مگر کیا ان کا نظام چل سکا؟ 1988ء میں پیپلز پارٹی کو پہلی بار انتخابات میں اترنے کا موقع ملا تو سارے کلے اکھڑ گئے اور اینٹی پیپلز پارٹی ٹیم تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک اسی وقت ٹوٹا جب ان کی 2013ء کی وفاقی حکومت کی کارکردگی سے پنجاب میں مایوسی پیدا ہوئی۔ اب بھی تحریک انصاف کے خلاف الیکشن جیت بھی لیا جائے تو کل جب تحریک انصاف کو موقع ملے گا تو یہ نظام تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائےگا۔

معیشت دائمی طور پر تبھی مستحکم ہوگی جب سیاست مستحکم ہوگی سیاست کو دائمی طور پر مستحکم کرنا ہے تو سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ چھوڑ کر انہیں مضبوط کرنا ہوگا۔ باجوہ ڈاکٹرائن والے کہتے تھے کہ سیاسی جماعتیں اثاثہ ہیں انہیں نہیں توڑیں گے آج کے ڈاکٹرائن میں تحریک انصاف کے ساتھ جو ہو رہا ہے یہ ماضی کے ڈاکٹرائن کے بالکل الٹ ہے، نہ اس تجربے سے کچھ ملا نہ نئے تجربے سے کچھ ملے گا۔ دنیا میں یہ طے ہے کہ جمہوریت اور مکمل جمہوریت سے ہی ریاست کی معیشت اور سیاست مستحکم ہوگی یہی راستہ اپنا کر بہتری ہوسکتی ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے