افغان طالبان حکومت پر نئی مگر کمزور پاکستانی پالیسی

222206-58166646.jpg

اکتوبر 2023 میں پاکستان نے افغان طالبان کی ڈی فیکٹو حکومت پر سخت پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا اور بین الاقوامی سطح پر طالبان کی حمایت نہ کرنے کا اعادہ کیا تھا۔

یہ فیصلہ طالبان کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بڑھتے ہوئے حملوں پر لگام ڈالنے اور اس کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی سے مسلسل انکار کے بعد کیا گیا تھا۔

پاکستانی حکام کے مطابق طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی میں 60 فیصد اور خودکش حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس میں 2,300 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔‘

مزید براں 2023 میں پاکستان میں ہونے والے 24 خودکش حملوں میں سے 15 میں افغان باشندے ملوث تھے اور اس کے بعد سے اب تک تقریباً چار لاکھ 55 ہزار افغان شہری پاکستان سے واپس وطن جا چکے ہیں۔

پاکستان سے بے دخل کیے گئے زیادہ تر افغان وہ ہیں جنہوں نے طالبان کی سخت حکمرانی سے بچنے کے لیے کابل چھوڑا تھا۔ افغان پناہ گزین پر پاکستان میں دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ میں سہولت کاری کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

اگر پاکستان کی طالبان نوازافغان پالیسی کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف طالبان کی حمایت حاصل کرنے کی امید پر مبنی تھی، تو یہ نئی پالیسی اس سے بھی بڑی تباہی ہے۔

ایک طرف افغان پناہ گزینوں کو بے دخل کرنے کا یکطرفہ فیصلہ کابل میں پاکستان کے لیے سفارتی خیر سگالی کو ختم کر دے گا۔ دوسری طرف، یہ افغانستان میں پہلے سے پاکستان مخالف عوامی رائے کو مزید تقویت دے گا اور پاکستان میں تشدد کی موجودہ لہر میں اضافہ کرے گا۔

طالبان کی اقتدار میں واپسی اور اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد، پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایکس پر لکھا تھا کہ ’افغانوں نے غلامی کی زنجیر توڑ دی ہے۔‘

اسی طرح، سرینا ہوٹل کابل میں میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے پاکستان کے سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید نے کہا تھا کہ ’فکر نہ کریں، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘

تاہم، دو سال بعد بھی پاکستان بھر میں تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر ختم نہ ہوسکی۔ افغان حکومت کے عدم تعاون، پاکستان کے اندر سیاسی انتشار اور کمزور معیشت نے پاکستان کو ایک مشکل جگہ پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔

اس کے پاس ملک میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کرنے کی سیاسی اور مالی استطاعت نہیں ہے۔ اکتوبر 2001 میں افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد پاکستان نے طالبان کو پناہ گاہیں اور مدد فراہم کرنے کی حمایت تین مقاصد پر کی تھی۔

پہلا کہ کابل میں ایک دوستانہ حکومت دوسرا افغانستان میں ہندوستانی اثر و رسوخ کو کم کرنا، اور تیسرا افغانستان میں پاکستان مخالف عسکریت پسندوں اور باغیوں کے نیٹ ورکس کو ختم کرنا۔

تاہم طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد چیزیں پاکستان کی توقعات کے بالکل برعکس نکلی۔ مثلاً پاکستان کے شمال مغربی اور جنوب مغربی علاقوں میں کالعدم ٹی ٹی پی اور بلوچ باغیوں کے حملوں میں اضافہ ہوا۔

دو سالوں تک، طالبان کی حکومت نے پاکستان کے سکیورٹی تحفظات کو دور کرنے کے لیے بالترتیب نومبر 2021 اور جون سے ستمبر 2022 میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ دو قلیل مدتی امن معاہدے کروائے جو بے نتیجہ ثابت ہوئے۔

ان معاہدوں نے کالعدم ٹی ٹی پی کو اپنے نیٹ ورک کو دوبارہ مضبوط کرنے کے لیے مزید وقت اور جگہ فراہم کی۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے کچھ عناصر کو پرامن رہنے کی شرط پر دوبارہ ان کے آبائی علاقوں میں واپس جانے کی اجازت دی گئی جو نقصان دہ ثابت ہوئی۔
واپس بھیجے گئے کالعدم ٹی ٹی پی عناصر نے پاکستان کے اندر ٹی ٹی پی کو دوبارہ زندہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

جیسے ہی یہ عسکریت پسند صوبہ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں واپس آئے، مقامی آبادی احتجاج کے لیے باہر نکل آئی اور ریاست کو اس طرح کی کسی مہم جوئی کے خلاف خبردار کیا۔

بعد ازاں دسمبر 2022 میں پاکستان کی مرکزی انسداد دہشت گردی ایجنسی، نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی نے سینٹ کو مطلع کیا کہ امن مذاکرات نے کالعدم ٹی ٹی پی کی حوصلہ افزائی کی اور گروپ نے مذاکرات کو اپنی صفوں میں اضافے کے لیے استعمال کیا۔

اگر پاکستان کے تزویراتی مفکرین نے تاریخ سے کوئی سبق سیکھا ہوتا تو انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ طالبان کے بانی ملا محمد عمر نے امریکی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے القاعدہ کے رہنما اور ستمبر 2001 کے حملوں کے ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کے بجائے اپنی حکومت کو قربان کر دیا تھا۔

طالبان ڈیورنڈ لائن کو برطانوی نوآبادیاتی نظام کا تسلط تصور کرتے ہیں جس نے سرحد کے دونوں طرف رہنے والی پشتون برادری کو تقسیم کر دیا ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخوندزادہ سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہے۔

اس موڑ پر طالبان اپنی تنظیمی ہم آہنگی اور نظریاتی ساخت کے بارے میں انتہائی محتاط ہیں۔ لہٰذا، طالبان کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی کو افغانستان سے نکالنے کا کوئی بھی اقدام تحریک کے اندر نظریاتی سخت گیر اور سیاسی عملیت پسندوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دے گا۔

مزید برآں کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بھی کارروائی طالبان جنگجوؤں کے داعش خراسان کی طرف بڑے پیمانے پر جانے کا باعث بنے گی، جو طالبان کی نظریاتی دشمن ہے۔
پاکستان اپنی داخلی سلامتی کے ساتھ ساتھ طالبان ٹی ٹی پی تعلقات کی گہرائی اور وسعت کے لیے افغانستان پر طالبان کے قبضے کے طویل مدتی نتائج کا اندازہ لگانے میں ناکام رہا ہے۔

دو دہائیوں تک، پاکستان نے طالبان کی حمایت کی۔ اگرچہ عالمی برادری نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ مذہبی انتہا پسندوں سے بلا امتیاز لڑے، لیکن پاکستان نے اچھے اور برے طالبان کی ایک خیالی تقسیم پیدا کی۔

درحقیقت اسلام آباد نے بین الاقوامی برادری کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ سیاسی طور پر افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے۔

دو دہائیوں بعد، جب بین الاقوامی برادری طالبان کے ساتھ بات چیت کے راستے تلاش کر رہی ہے، تو پاکستان نے تعلقات کو ختم کرنے اور ایک نئے راستے پر جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

پالیسیاں عقلیت اور منطق پر بنتی ہیں، مفروضوں یا غصے پر نہیں۔ جیسا کہ اسلام آباد طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کر رہا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے علاقائی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے مذہب کا استعمال ترک کر دے اور دہشت گردی کے خلاف ایک ایسا جامع فریم ورک بنائے۔

ایسا فریم ورک جو بے سہارا افغان مہاجرین پر اپنی مایوسی کا اظہار کرنے کے بجائے شدت پسند گروہوں کو نشانہ بنائے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے