استعفے کے باوجود جج کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ: سپریم جوڈیشل کونسل

2589213-justicemazahiraliakbarnaqvi-1704952857-786-640x480.jpg

سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شکایات پر جمعرات کو کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

کونسل کے اجلاس میں چیئرمین کونسل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’یہ نہیں ہو سکتا کوئی جج پورے ادارے کی ساکھ تباہ کر کے استعفیٰ دے جائے اور ہم کوئی کارروائی نہ کریں، پورا پاکستان ہماری طرف دیکھ رہا ہے، عوام جاننا چاہتے ہیں شکایات جینوئن تھیں یا نہیں، کونسل نے اب کوئی نہ کوئی فائنڈنگ تو دینی ہے۔‘

چیئرمین کونسل نے کہا کہ ’آئین کی دستاویز ججوں کے نہیں عوام کے فائدے کے لیے ہے، اگر کوئی جج سپریم کورٹ کی ساکھ تباہ کر کے استعفیٰ دے جائے تو کیا اس سے خطرہ ہمیں نہیں ہو گا؟ اپنی تباہ ساکھ کی سرجری کیسے کریں گے؟ کیا آئین کی دستاویز صرف ججز یا بیوروکریسی کے لیے ہے؟‘

’ہم یہاں اپنی خدمت کے لیے نہیں بیٹھے، ہم یہاں اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے بیٹھے ہیں، اگر ایک چیز سب سیکھ لیں تو سارے مسئلے حل ہو جائیں گے، عدالت عظمٰی سمیت ادارے عوام کو جوابدہ ہیں۔‘

سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس (ر) مظاہر نقوی کو استعفے کے باوجود حق دفاع بھی دے دیا اور کہا کہ جسٹس (ر) مظاہر نقوی کل خود یا وکیل کے ذریعے پیش ہو سکتے ہیں۔

کونسل نے جسٹس (ر) مظاہر نقوی کو کارروائی جاری ہونے سے آگاہی کا نوٹس بھی جاری کر دیا۔

کونسل کی کارروائی میں مزید کیا ہوا؟

جمعرات کی سہ پہر جب سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس شروع ہوا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ تین کونسل کے اراکین آئے جن میں سینیئر جج جسٹس طارق مسعود، بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم افغان اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی شامل تھے۔

کونسل کے رکن سینئر سپریم کورٹ جج جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنی رائے کا اظہار تحریری طور پر کر دیا تھا جس کے بعد وہ مزید اس کارروائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے۔ جس کے باعث سپریم جوڈیشل کونسل کا کورم پورا نہیں تھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس کے ساتھ سپریم کورٹ کے دو اعلی ترین جج ہوتے ہیں اس کے علاوہ دو ہائی کورٹس سے چیف جسٹس صاحبان بھی کونسل کا حصہ ہوتے ہیں۔ پانچ اراکین پر مشتمل سپریم جوڈیشل کونسل ہوتی ہے۔

کارروائی کے آغاز میں اٹارنی جنرل پاکستان منصور اعوان روسٹرم پر آ گئے۔ اٹارنی جنرل نے جسٹس مظاہر نقوی کے استعفے سے کونسل کو آگاہ کیا اور اس کا متن پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آئین کی جس شق کے تحت دیا گیا وہ پڑھ دیں۔‘ اٹارنی جنرل نے آرٹیکل 179 پڑھ کر سنایا۔

کورم پورا نہ ہونے پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ’قانون اس پر کیا کہتا ہے اگر کونسل کا ایک رکن شامل ہونے سے معذرت کر لے؟‘ اٹارنی جنرل نے کہا ’ایسی صورت میں اس جج کی جگہ اس سے اگلا سینیئر جج کونسل کا حصہ بن جائے گا۔ سپریم کورٹ میں سنیارٹی کے لحاظ سے جسٹس اعجازالاحسن کے بعد جسٹس منصور علی شاہ سینیئر ہیں۔‘ اس کے بعد کونسل کا کورم پورا کرنے کے لیے جسٹس منصور علی شاہ کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

کونسل کی کارروائی میں وقفہ کیا گیا تاکہ جسٹس منصور علی شاہ آئیں کورم پورا ہو اور استعفے کے بعد کی کارروائی کا فیصلہ کیا جائے۔

کارروائی دوبارہ شروع ہونے پر چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’جج کی برطرفی کا سوال اب غیر متعلقہ ہو چکا ہے، ابھی تک کونسل نے صدر مملکت کو صرف رپورٹ بھیجی تھی، اگر الزامات ثابت ہوجاتے تو کونسل صدر مملکت کو جج کی برطرفی کے لیے لکھتی۔‘چیئرمین کونسل نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ’اس صورتحال پر آپ کی کیا رائے ہے؟‘

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’عوامی اعتماد کا شفافیت سے براہ راست تعلق ہے، کونسل کے سامنے سوال یہ ہے کہ جج کے استعفے کا کارروائی پر اثر کیا ہو گا، جج کو ہٹانے کا طریقہ کار رولز آف پروسیجر 2005 میں درج ہیں، سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے جون 2023 میں فیصلہ دیا کہ جج ریٹائر ہو جائے تو اس کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی، کیس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف شکایتی معلومات سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی گئیں، کونسل میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے شکایت پر کارروائی نہیں کی گئی، ثاقب نثار کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر آئینی درخواست 2020 میں دائر ہوئی اور فیصلہ 2023 میں ہوا۔‘

اس پر چیئرمین کونسل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’ثاقب نثار کے معاملے میں تو کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی جبکہ اب کارروائی شروع ہو چکی ہے۔‘ اٹارنی جنرل نے جواباً کہا کہ ’یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہے جس کا سامنا سپریم جوڈیشل کونسل کر رہی ہے۔‘
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’اس کا مطلب یہ نہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل رائے نہیں دے سکتی، اگر کونسل میں سے جج کا کوئی دوست کارروائی کے آخر دن بتا دیتا کہ برطرف کرنے لگے ہیں، اور وہ استعفیٰ دے جائے تو کیا ہو گا؟ اٹارنی جنرل کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ کارروائی کے دوران جج کا استعفیٰ دے جانا اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، جو فیصلہ جون 2023 میں آیا وہ دو رکنی بنچ کا تھا، جبکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آنے کے بعد آئینی معاملات پر یہ بنچ نہیں دے سکتا تھا۔‘

پس منظر

گزشتہ روز بدعنوانی کے الزامات سہنے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مظاہر علی نقوی نے اپنے خلاف چلنے والی سپریم کونسل کی کارروائی کے باعث استعفیٰ دے دیا تھا۔ نو جنوری کو ان کی کونسل کے نوٹسز کے خلاف اپیل بھی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے خارج کر دی تھی۔ جس کے بعد انہوں استعفے میں کہا تھا کہ اس صورت حال میں میرے لیے بطور جج کام کرناممکن نہیں رہا۔

گزشتہ برس اکتوبر میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے اکثریتی بنیاد پر سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو مس کنڈکٹ کی شکایت پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور 14 روز میں جواب طلب کرلیا تھا۔

سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف 10 شکایتیں جمع کرئی گئی تھیں۔

فروی 2023 میں جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف ناجائز اثاثوں اور مس کنڈکٹ پر ریفرنس دائر ہوا تھا جس کے بعد جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی لیے درخواست دائر کر دی۔

گزشتہ روز نو جنوری کو جسٹس مظاہر نقوی کی آئینی درخواست پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے کی اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے