یمنیوں کا خوف امریکا نے انٹرنیشنل بحری فوج جمع کرنے کی کوشش شروع کردی

69c0444f-d9e0-40e7-85b6-5c45e49eabb8_16x9_1200x676.jpg

امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق  امریکا انصار اللہ کی طرف سے بحری جہازوں کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے بحیرہ احمر میں کثیر القومی بحری فوج کو وسعت دینے کی کوشش کر رہا ہے۔

اخبار نے ایک باخبر امریکی فوجی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "بہت سے ممالک دنیا کے اس حصے میں تجارتی جہاز رانی میں خلل کو روکنے میں دلچسپی رکھتے ہیں”۔ عرب ورلڈ نیوز ایجنسی کے مطابق امریکا اس حوالے سے کئی دوسرے ممالک سے بھی بات کررہا ہے۔

اہلکار نے امریکی کوششوں کو بڑے پیمانے پر "پرعزم ” قرار دیا اور کہا کہ ابھی تک اس کی کوئی واضح ٹائم لائن نہیں ہے کیونکہ اتحادی اور شراکت دار اس بات کا جائزہ لیں گےکہ وہ کس طرح حصہ لیں گے”۔

امریکی انتظامیہ کے ایک سینیر اہلکار نے کہا کہ فورس کو بڑھانے کے بارے میں بات چیت "فعال طریقے سے ہو رہی ہے”

یمن میں انصار اللہ نے ہفتے کے روز اعلان کیا تھا کہ وہ کسی بھی ملک کے اسرائیل جانے والے تمام بحری جہازوں کو گذرنے سے روک دیں گے۔ انہوں نے اسرائیل کے بحری جہازوں کی آمدورفت کو غزہ کی پٹی میں جاری اسرائیلی حملوں کی روک تھام اور غزہ کو ادویات اور خوراک کی سپلائی سے مشروط کیا۔ انکا کہنا تھا کہ اگرغزہ میں ادویات اور خوراک لے جانے کی اجازت نہ دی گئی تو اسرائیل کی طرف جانے والے تمام بحری جہاز ان کے لیے "جائز ہدف” بن جائیں گے‘‘۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے خبردار کیا کہ یمنیوں کی جانب سے بحیرہ احمر میں تجارتی بحری جہازوں پر میزائل حملے نہ صرف اسرائیل اور امریکا کے لیے بلکہ درجنوں ممالک کے لیے بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔

بلینکن نے کہا کہ یمنیوں کے لیے مالی امداد کو کمزور کرنے کے لیے پابندیاں مؤثر طریقے سے لاگو کی گئی ہیں اور انھوں نے مستقبل میں فوجی کارروائی کو مسترد نہیں کیا ہے۔

7 اکتوبر کو حماس اور دیگر فلسطینی دھڑوں کی جانب سے غزہ کی پٹی سے ملحقہ اسرائیلی قصبوں پر اچانک حملے کے بعد سے اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر اپنی جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔

یمنیوں نے تنازع میں مداخلت کرتے ہوئے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملہ کیا اور اسرائیل پر ڈرون اور بیلسٹک میزائل داغے جس کا مقصد غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی حمایت ظاہر کرنا تھا،جہاں اسرائیل نے تقریباً دو ماہ کی جنگ کے دوران تقریباً 18,000 افراد کو شہید کر ڈالا ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے