غزہ کی آدھی آبادی بھوک کا شکار ہے: اقوام متحدہ
منگل کو جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان انسانی بنیادوں پر فوری سیز فائر کے لیے ووٹنگ ہونے جا رہی ہے، امدادی اداروں نے بتایا کہ غزہ کی پٹی میں محصور فلسطینیوں میں بھوک کی شدت بڑھ رہی ہے۔
جمعے (آٹھ دسمبر) کو سیز فائر سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد امریکہ کی جانب سے ویٹو کیے جانے کے بعد غزہ پر اسرائیل کے حملوں میں مزید سینکڑوں فلسطینی جان سے جا چکے ہیں۔
غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے زیادہ تر کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا ہے اور رہائشیوں کا کہنا ہے کہ گنجان آباد ساحلی علاقے میں پناہ یا خوراک تلاش کرنا ناممکن ہے۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ غزہ کی آدھی آبادی بھوک کا شکار ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ذمہ دار اقوام متحدہ کے ادارے یو این آر ڈبلیو اے نے ایکس پر لکھا: ’بھوک نے ہر کسی کو متاثر کیا ہے۔
غزہ کے باشندوں نے امدادی ٹرکوں کی لوٹ مار اور قیمتوں میں اضافے کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ بار بار نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لوگ بھوک اور سردی کے ساتھ ساتھ بمباری سے بھی مر رہے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے لوگوں کو نقل مکانی کی ہدایات شہریوں کے تحفظ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کا حصہ ہیں کیونکہ وہ حماس کے عسکریت پسندوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کر رہا ہے جنہوں نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر سرحد پار حملے میں 1200 افراد کو جان سے مارا اور 240 کو قیدی بنا لیا تھا۔ اب تک تقریباً 100 قیدیوں کو رہا کیا جاچکا ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کے جوابی حملے میں 18 ہزار 205 افراد جان سے جا چکے ہیں اور 50 ہزار کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔
امکان ہے کہ 193 رکنی جنرل اسمبلی منگل کو ایک قرارداد کا مسودہ منظور کرے گی جو گذشتہ ہفتے 15 رکنی سلامتی کونسل میں امریکہ کی جانب سے روکی گئی قرارداد کی زبان کی آئینہ دار ہے۔
جنرل اسمبلی کی قراردادیں پابندی نہیں ہیں لیکن سیاسی وزن رکھتی ہیں اور عالمی خیالات کی عکاسی کرتی ہیں۔
کچھ سفارت کاروں اور مبصرین نے پیش گوئی کی ہے کہ اس ووٹنگ کو اکتوبر میں اسمبلی کے ’فوری، پائیدار اور انسانی جنگ بندی‘ کے مطالبے سے کہیں زیادہ حمایت حاصل ہوگی۔