ایک ایسے شخص کے طور پر کہ جس نے 1948ء میں اسرائیلی رژیم کا قیام اور اس کے بعد گزرے 50 سال بھی دیکھے، اس کے مستقبل کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
میں کہتا ہوں کہ اسرائیل کو ظلم و جارحیت کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا ہے اور ہر وہ ملک کہ جس کی بنیاد ظلم و جارحیت پر ہو، تباہی اس کا مقدر ہوتی ہے!
چاہے اس کے پاس ایسی طاقت ہی کیوں نہ ہو کہ جو اسے باقی رہنے کا جواز بخشے؟
طاقت باقی نہیں رہتی، اس دنیا میں کسی کی طاقت ہمیشہ نہیں رہتی، بچہ پہلے بچہ ہوتا ہے
پھر نوجوان، پھر جوان اور پھر بوڑھا، خلاص!
حکومتیں بھی ایسی ہی ہیں، ان کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔۔
وہ شروع ہوتی ہے، شروع ہوتی ہے، شروع ہوتی ہے اور پھر تباہی پر ختم ہو جاتی ہے، (طاقت کا) فائدہ نہیں!
اور ابھی اسرائیل کس مرحلے میں ہے؟
میں کہتا ہوں کہ اسرائیل، ان شاء اللہ آنے والی (اکیسویں) صدی کی پہلی چوتھائی میں ختم ہو جائے گا
اور وقت متعین کرتے ہوئے میں کہوں گا کہ سال 2027ء میں اسرائیل کا مکمل طور پر خاتمہ ہو جائے گا
باالآخر یہی تاریخ کیوں؟
کیونکہ ہم قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں، اور قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ ہر 40 سال میں نسلیں بدل جاتی ہیں!
پہلے 40 سال میں نکبہ رونما ہوا، دوسرے 40 سال میں انتفاضہ، لڑائی، قتال، جنگ اور گرنیڈ شروع ہوئے
اور تیسرے 40 سال آخری ثابت ہوں گے، ان شاء اللہ تعالی!
یعنی یہ، یہ حساب۔۔
یہ قرآنی انکشاف ہے
قرآنی انکشاف۔۔
اللہ تعالی نے جب بنی اسرائیل پر صحرائے سینا میں 40 سال کی سرگردانی فرض کر دی تو کیوں؟
ان کی مريض و خستہ حال نسل کو جنگجو نسل سے بدلنے کے لئے!
ہماری نکبہ والی پہلی نسل چلی گئی۔۔ پھر قیام کرنے اور گرنیڈوں والی نسل آئی۔۔ اب بعد کی نسل، آزادی کی نسل ہو گی ان شاء اللہ!
شیخ احمد یاسین، آپ مستقل کو کیسا دیکھتے ہیں؟
میں کہتا ہوں کہ ہمارا رستہ مشکل ہے اور سخت محنت اور صبر کی ضرورت ہے۔۔
لیکن مستقبل ہمارا ہے ان شاء اللہ!
اور آئندہ ضرور آنے والا ہے
اللہ تعالی کے وعدے کے خلاف کچھ نہیں ہوتا، اللہ تعالی اپنے وعدے کے خلاف کبھی
کچھ انجام نہیں دیتا