پروفیسر جان جے میئرشیمر
Prof John J. Mearsheimer
پوری دنیا کے اکثر لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ اسرائیلی لابی نے درحقیقت امریکی کانگریس کو خرید رکھا ہے
اور وہ تقریبا جو چاہتی ہے حاصل کر لیتی ہے
البتہ یہ اس حوالے سے کوئی زیادہ حیران کن نہیں
ہم ہمیشہ ہی عالمی قانون، اصولوں پر مبنی نظام اور انسانی حقوق کی مبینہ اہمیت کے بارے بات کرتے ہیں
یہ چیز ہمیں ”دنیا کے سب سے بڑے منافق” کے جیسا نظر آنے پر مجبور کرتی ہے!
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس چیز نے امریکہ کو رسوا کر کے رکھ دیا ہے۔۔
اور یہاں (امریکہ میں) ایک جنگی مجرم (نیتن یاہو) موجود ہے۔۔ وہ جنگی مجرم ہے!!
وہ (نیتن یاہو) ایک ایسا لیڈر ہے جو غزہ میں جاری نسل کشی کی مہم کا ذمہ دار ہے!
جس کا اکثر کانگریس اراکین کی جانب سے خیرمقدم کیا جا رہا ہے اور اس چیز نے امریکی ساکھ کو بری طرح سے تباہ کیا ہے
جو مستقبل میں ہماری شہرت پر کلنک کا ایک ٹیکہ ہو گا۔۔ اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیئے!
وہ لوگ جو اس(نیتن یاہو)کی تقریر کےخیرمقدم میں کھڑےہوئےہیں؛امریکہ کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ ہی امریکی عوام کی
وہ چیز جس پر مجھے الٹی آ رہی ہے، میرا اپنا یہ نتیجہ ہے کہ
بلکہ وہ اس اشرافی طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں کہ جنہوں نے انہیں منتخب کروایا ہے!
بہت کم (اراکین کانگریس) ہی (نیتن یاہو کی تقریر میں) نہ جانے کی جرأت کر سکے ہیں!
رکن کانگریس تھامس میسی، جو میرا قدیمی دوست ہے، واحد ریپلکن ہے کہ جس نے اس (نیتن یاہو)کی تقریر کا بائیکاٹ کیا
علاوہ ازیں (نیتن یاہو کی تقریر کا بائیکاٹ کرنے والے) شاہد 100 ڈیموکریٹ بھی تھے
جبکہ ان ڈیموکریٹس کہ جو نہیں آئے، میں سے بہت سے، جیسے کاملا ہیرس مثلا
نے اسرائیل کے لئے تمام بجٹوں کی حمایت کی ہے ور انہیں ووٹ دیا ہے
لیکن وہ صرف اس جنگی مجرم کے ساتھ ایک کمرے میں نظر نہیں آنا چاہتے تھے!
آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ وہ معمولا اسرائیل کی کسی بھی قید و شرط کے بغیر اندھی حمایت کرتے آئے ہیں جب
صحیح! میں ان تمام لوگوں کو جو وہاں نہیں گئے، وہاں نہ ہونے کا کریڈٹ دیتا ہوں!
خاص طور پر انہیں (صیہونیوں کو) غزہ کے فلسطینیوں کے قتل عام کے لئے اسلحہ و گولہ بارود کی ضرورت ہوتی ہے
بہرحال جب نیتن یاہو کیپیٹل ہل (امریکی کانگریس) میں موجود تھا تو ان کا وہاں نہ جانا ایک جزوی فتح ہے
اور میں اس کے بارے اچھا محسوس کرتا ہوں
میں آپ کے ساتھ متفق ہوں، کیا آپ کو حیرانگی نہیں ہوئی کہ وہ (نیتن یاہو) اسقدر جنگی جنون میں مبتلاء تھا کہ
اس نے حتی کوئی ایک بھی امن منصوبہ پیش نہیں کیا۔۔
حتی اس نے امن يا پھر امن کے مفہوم تک کے بارے بھی سرے سے کوئی بات نہیں کی!
مجھے اس بات پر بھی کوئی حیرانگی نہیں ہوئی کہ اس نے جھوٹ کا پلندا کھول کر رکھ دیا
نہیں، مجھے اس بات پر کوئی حیرانگی نہیں ہوئی کہ وہ (نیتن یاہو) انتہائی جنگی جنون میں مبتلاء تھا
سفید جھوٹ! کہ البتہ امریکی کانگریس نے انہیں قبول کر لیا!
اور۔۔ یہ بہت اہم ہے کہ آپ کے پوائنٹ ”امن منصوبے” کے بارے سمجھا جائے!
جس کے بعد غزہ کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کسی قسم کے قابل عمل سیاسی حل پر کام کی باری آتی ہے
وہ کچھ جو یہاں ہو رہا ہے یہ ہے کہ ہم یہاں امریکہ یا مغرب میں یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ
وہ (نیتن یاہو) جنگبندی پر رضامندی کے لئے کسی قسم کے معاہدے کے ساتھ اتفاق کر لے
وہ (نیتن یاہو) درحقیقت ان دونوں میں سے کسی ایک کام کے کرنے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتا!
اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ بنیادی طور پر جس چیز میں وہ (نیتن یاہو) مصروف ہے؛
وہ غزہ میں نسلی تطہیر (فلسطینیوں کی نسل کشی) ہے!!
وہ (نیتن یاہو) تمام فلسطینیوں کو وہاں (غزہ) سے نکال باہر کر دینا چاہتا ہے!!
اسے جنگبندی میں کوئی دلچسپی نہیں۔۔
وہ تو درحقیقت غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرنے کے لئے جو کچھ
وہ کر سکتا ہے، کرنا چاہتا ہے!!