غزہ میں انسانی ہڈیوں پر بنائی جانیوالی "امریکی بندرگاہ” کے بارے آپ کیا جانتے ہیں؟

ہمیں امریکہ کے خرچ پر تعمیر کی جانے والی اس بندرگاہ کے بارے بات کرنی ہے کہ جو غزہ کے ساحل پر بنائی جا رہی ہے اور اس کا تعمیر کنندہ بھی امریکہ ہی ہے!

ہم اس بندرگاہ کی تاثیر اور اس کے مستقبل کے بارے گفتگو کریں گے

اس حوالے سے 2 حقیقتیں واضح ہیں، البتہ میں "ایندھن” کے بارے بات نہیں کروں گی!

اس حوالے سے دو حقیقتیں واضح ہیں

پہلی یہ کہ جب انہوں نے اس بندرگارہ کی تعمیر شروع کرنے کے لئے "عمارتی ملبہ” اٹھانا شروع کیا۔۔

تو انہوں نے یہ ملبہ "بمباری” کے باعث تباہ ہو جانے والی "فلسطینیوں کے گھروں” سے لینا شروع کر دیا۔۔

لہذا درحقیقت انہوں نے ان پتھروں کو چوری کیا ہے کہ جن سے "یہ فلسطینی گھر” بنائے گئے تھے، اور یوں انہوں نے ملبہ جمع کر کے بندرگاہ بنانا شروع کر دی

جیسا کہ ہزاروں فلسطینی شہید و لاپتہ ہو گئے ہیں اور اب بھی ملبے تلے دبے ہیں.

تو جب آپ ایکسیویٹر لے آئے، آپ نے وہ ملبہ اٹھایا اور یہ بندرگاہ بنانے کے لئے اسے سمندر کے ساتھ واقع سڑک کے ذریعے یہاں لے آئے۔۔ تو اس ملبے میں ان فلسطینیوں کے جنازے بھی شامل ہوں گے کہ جو ملبے تلے دبے ہوئے تھے۔۔
تو جب آپ اس بندرگاہ پر قدم رکھیں گے تو درحقیقت آپ فلسطینیوں کے جنازوں پر چل رہے ہوں گے۔۔!
لہذا آپ ان جنازوں پر قدم رکھ رہے ہوں گے یا ڈرائیونگ کر رہے ہوں گے کہ
جنہیں کبھی تدفین ملی اور نہ ہی نام (کتبہ) مل سکا اور کبھی انہیں ملبے سے باہر نہیں نکالا گیا۔۔
بچے۔۔
اس ملبے میں بچوں کی کھوپڑیاں بھی شامل ہوں گی!
ایک "مردوں کی سڑک”!
جب اسرائیلیوں نے بمباری کی تھی تب فلسطینیوں کے پاس، 72 گھنٹوں تک ملبے تلے چیختے اور شور مچاتے اپنے زخمی عزیزوں کو باہر نکالنے کے لئے صرف "خالی ہاتھ” ہی تھے!
تب دونوں؛ اسرائیلی و امریکی یہی کہتے تھے کہ ہم آپ کو کوئی ایکسیویٹر نہیں دیں گے، کوئی بلڈوزر نہیں دیں گے!
ان لوگوں کو کنکریٹ کے ملبے سے باہر نکالنے کے لئے سول ڈیفنس ٹیموں کے پاس کوئی سازوسامان نہ تھا!
درحالیکہ، 30 نئے بلڈوزر و ایکسیوٹر اور بھاری مشینری اور اس بندرگاہ کو تعمیر کرنے کے لئے ضروری تمام سازوسامان لانے میں امریکہ کو 8 گھنٹوں سے بھی کم وقت لگا!
اور جب فلسطینی چلا رہے تھے کہ ان کے عزیزوں کو ملبے تلے سے باہر نکالا جائے تو اسرائیل نے
سول ڈیفنس کا تمام سازوسامان بمباری کر کے جلا ڈالا تھا لہذا ان کے پاس کوئی بلڈوزر باقی نہ بچا!
وہ شدید تکلیف کے ساتھ 72 گھنٹوں تک چیختے چلاتے آہستہ آہستہ مر گئے۔۔!
ذرا اس بارے بھی سوچئے!
جبکہ امریکی، 8 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں برینڈ نیو بلڈوزروں و ایکسیویٹروں کی قطاریں لانے میں اچانک ہی کامیاب ہو گئے!
امریکی یہ سب کچھ "بندرگاہ” بنانے کے لئے کر سکتے ہیں۔۔ لیکن سینکڑوں سسک سسک کر مرتے فلسطینیوں کی جانیں بچانے کے لئے نہیں؟
لہذا اس طرح سے "انسانی ہمدردی” کو "نظر انداز” کرتے ہوئے
 آپ کہتے ہیں کہ "یہ ایک انسانی ہمدردی کی بندرگاہ” ہے؟!
تو یہ کیسی انسانی ہمدردی ہے کہ آپ فلسطینیوں کو ان بلڈوزروں کے دینے سے انکار کرتے ہیں
کہ جنہیں اب آپ سائپرس سے صرف 8 ہی گھنٹوں میں لے کر آ گئے ہیں؟!
وہ عام لوگ اپنے گھروں کے ملبے تلے سے خود کو باہر نکالے جانے کے لئے 72 گھنٹوں تک انتظار کرتے رہے لیکن تب انہیں کوئی بلڈوزر میسر نہ ہو سکا!
اور غزہ کی ساحل۔۔! وہ جگہ کہ جہاں تمام فلسطینی گرم موسم میں جاتے ہیں۔۔
وہ جگہ کہ جہاں وہ تیرتے ہیں اور ان کے بچے وہاں پتنگیں اڑاتے ہیں۔۔
وہ جگہ کہ جہاں وہ اپنے گھوڑے لاتے اور ساحل پر سواری کرتے ہیں۔۔
وہ جگہ کہ جہاں فلسطینی اپنی شادیوں کی تقریبات منعقد کرتے ہیں۔۔ وہ جگہ کہ جہاں ان کے رسٹورنٹس ہیں اور کیفے ہیں۔۔
عوام ساحل پر امڈ آتی ہے۔۔ وہ گرمیوں میں خود کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ساحل پر "امڈ” آتے ہیں۔۔!
جبکہ ٹھنڈے مہینوں میں وہ ساحل کو اپنی سختیوں اور درد و الم سے نجات کے لئے استعمال کرتے ہیں
اور ماہیگیری کی صنعت کے بارے کیا۔۔ وہ ختم ہو چکی ہے!
یہ ساحل اب "کنٹرول” میں لے لی گئی ہے!
یہ ساحل ان امریکی فوجیوں، سپاہیوں اور پرائیویٹ فرموں نے اپنے قبضے میں لے لی ہے کہ جنہیں اس علاقے کو "محفوظ” بنانے کے لئے رقوم ادا کی جاتی ہیں۔۔
لہذا 2 ہزار فوجی جلد ہی 20 ہزار فوجیوں میں بدل جائیں گے
اور پوری ساحل ایک "ملٹری زون” اور "بیرک” میں بدل جائے گی
جہاں "کنٹرولڈ” داخلی و خارجی راستے مقرر کئے جائیں گے
اور جہاں "بڑے بڑے بحری جہاز” پہنچ کر "فلسطینیوں” کو "مستقل ملک بدری” کے لئے اپنے ساتھ لے جائیں گے!
اور بھی بہت سے دلائل ہیں کہ جن کی بنیاد پر یہ "بندرگاہ” "انسانی ہمدردی” کی نہیں!
اس بندرگاہ کو ختم ہو جانا چاہیئے!!
یہ بندرگاہ باقی نہیں رہ سکتی۔۔ کیونکہ اس کے باقی رہنے سے غزہ باقی نہیں بچے گا!
2 views

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے