ڈائریکٹر جنرل عبدالرحمن الراشد
جو فارم اور مواد وغیرہ کو مینیج کرتے ہیں
مثلا کیا اصلاحات و عبارتیں استعمال کی جائیں اور کیا اصطلاحات استعمال نہ کی جائیں!
الجزیره ہمیشہ ”اسرائیلی مغویوں” کیلئے لفظ ”قیدی” استعمال کرتا ہے
لیکن العربيہ ان کے لئے ”مغوی” کا لفظ استعمال کرتا ہے
الجزیرہ میں کہتے ہیں ”قابض صیہونی”، ”قابض صیہونی رژیم”
لیکن العربيہ میں اسرائیل کے لئے ”قابض” کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا
کہا جاتا ہے ”اسرائیلی فوج” یا ”اسرائیل”
الجزیرہ مارے جانے والے فلسطینیوں کے لئے ”شہید” کا لفظ استعمال کرتا ہے
لیکن العربيہ مارے جانے والے فلسطینیوں کے لئے ”ہلاک شدگان” کی اصطلاح استعمال کرتا ہے
الجزیرہ میں حماس کے لئے ”فلسطینی مزاحمتی تحریک” کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے
لیکن العربيہ میں ہم ہمیشہ ”تحریک حماس” یا ”تنظیم حماس” سنتے ہیں
العربيہ میں ہم حماس کی کوئی تعریف کہ جس کے ذریعے وہ اسے ایک عظیم يا اہم تنظیم ظاہر کرنا چاہتے ہوں، نہیں دیکھتے
ظاہرا کوئی بڑا فرق نظر نہیں آتا
لیکن بیان کرنے کے انداز میں انتہائی باریک و اہم فرق موجود ہے
کہ بولنے کا یہ انداز زیادہ تر اسرائیل کے مفاد میں وزن ڈالتا ہے!
اسرائیل کے بارے بیان ہونے والی اسٹوری، العربيہ چینل پر، الجزیرہ کے بالکل مخالف ہے
صحافت کے اعتبار سے العربيہ کو کیا امتیازات حاصل ہیں؟
اسرائیل کے لئے( العربيہ کا) یہ اقدام بہت محسور کن ہے!
العربيہ چینل اور اسرائیلی حکومت کے درمیان باہمی تعاون موجود ہے
اس چیز کو آپ، (اسرائیل سے متعلق) خبروں کے عنوانات اور مواد میں، بارہا محسور کن دیکھ سکتے ہیں!
وہ شخص کہ جسکی گاڑی پر حملہ ہوا اور وہ مارا گیا ”خلیل المقدح” ہے
وہ عينى شاہدین جو جائے وقوعہ پر موجود تھے، کہتے ہیں کہ
انہیں مارے جانے والے شخص کا نام العربيہ ٹیلیویژن چینل سے معلوم ہوا تھا
عین اسی وقت کہ جب فورسز لاش کو گاڑی سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہی تھیں
اور ابھی اس کی شناخت کا کچھ پتہ نہ تھا
(العربيہ کے) اس انداز بیان اور مواد کا پھیلاؤ ہمارے (اسرائیل کے) لئے اہم ہے!
اور یہ اس لئے (اہم) ہے کہ اسرائیلی لوگ، زبان کی محدودیت کی خاطر اس تک دسترسی نہیں رکھتے
ہم جب ان مانیٹروں پر نظر ڈالتے ہیں
تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنگ کے نتائج،
عالم اسلام کے اندر موجود ہمارے ات
حادوں، معاہدوں اور تعلقات کے انجام پر کیا اثر ڈالیں گے؟