عارف علوی: ایوب دور میں سٹوڈنٹ لیڈر سے تنازعات میں گھرے صدارتی دور تک
’اگر ہم اپنے آپ کو گڑھے میں پائیں تو حکمت کا تقاضا ہے کہ اللہ سے مدد مانگیں اور کم از کم مزید کھدائی بند کردیں۔صدر عارف علوی نے پاکستان کے حالیہ انتخابی نتائج کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر یہ طنزیہ جملہ لکھا تھا۔مبصرین کا ماننا ہے کہ ان کا شمار پاکستان کے متنازع صدور میں ہو گا اور اس کی وجہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بعد کی صورتحال میں ان کا کردار ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی کی پیدائش کراچی میں ڈاکٹر حبیب الرحمان علوی کے گھرانے میں ہوئی۔ تحریک انصاف میں شمولیت سے قبل ڈاکٹر علوی کا گھرانہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھتا تھا۔ ان کے والد انڈیا میں ڈینٹسٹ تھے جو قیام پاکستان کے بعد کراچی منتقل ہو گئے تھے۔ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ ان کے والد جواہر لال نہرو کے بھی ڈاکٹر تھے اور ان کی نہرو سے خط و کتابت ان کے پاس موجود ہے جبکہ فاطمہ جناح نے انھیں مھتاپیلس کا ٹرسٹی مقرر کیا تھا۔ان کے والد مذہبی خیالات کے وطن پرست تھے جس کا ذکر انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا تھا اور بتایا تھا کہ ’کراچی کے گرامر سکول میں ایک روز وہ تاخیر سے پہنچے جس کے بعد انھیں بائبل کی کلاس لینا پڑی۔اس صورتحال پر ان کے والد نے ایک مہم شروع کی کہ کیا اس لیے پاکستان بنایا گیا تھا کہ یہاں بائبل کی تعلیم دی جائے گی بعد میں عارف علوی کا وہاں سے داخلہ ختم کردیا گیا۔
جنرل ایوب دور کی گولی
عارف علوی کے جسم میں ایک گولی آج بھی پیوست ہے، جو ایوب خان کی آمریت کے دنوں میں احتجاج کے دوران انھیں لگی تھی۔ وہ ان دنوں مولانا مودودی کی فکر کے پیروکار تھے جو پاکستان میں ایک اسلامی ریاست کا نظریہ رکھتے تھے۔یہ سنہ 1969 کی بات ہے جب عارف علوی ایوب خان کے مارشل لا کے خلاف مال روڈ پر احتجاج کر رہے تھے۔ ان دنوں وہ پنجاب یونیورسٹی سے منسلک ڈینٹل کالج میں زیر تعلیم ہونے کے ساتھ طلبہ یونین کے صدر بھی تھے۔ان کا کہنا ہے کہ انھیں جمہوریت کی بحالی کی اس تحریک میں دو گولیاں لگیں جس میں سے ایک آج بھی ان کے جسم میں موجود ہے۔
عارف علوی نے طالب علمی کے زمانے میں سیاست کے بعد سنہ 1977 میں پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا وہ جماعت اسلامی کے امیدوار تھے لیکن یہ انتخابات نہ ہو سکے اور ملک میں جنرل ضیا الحق کی آمریت آ گئی جس کے بعد وہ اپنے پیشے کی جانب آ گئے۔اسی دوران انھوں نے امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن کے صدر بنے اس کے بعد ایشیا پیسفک ڈینٹل فیڈریشن کے صدر کے منصب تک پہنچے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ جماعت اسلامی سے دور ہو گئے۔ انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں جماعت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ گٹر اور پانی کا مسئلہ بھی اسلامی نظام لینے کے بعد ٹھیک کرنے کی بات کرتے تھے۔‘
عمران خان کی قربت اور انتخابی سیاست
عارف علوی نوجوانی میں سکواش اور کرکٹ کھیلتے تھے۔ اس وقت کے دیگر کئی لوگوں کی طرح وہ عمران خان سے متاثر تھے۔ سنہ 1996 میں جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی گئی تو عارف علوی بھی اس تنظیم سازی کا حصہ رہے۔ وہ پارٹی کے ’نئے پاکستان‘ کے منشور کے مصنفوں میں بھی شامل ہیں۔تحریک انصاف میں ان کا سیاسی سفر صوبائی صدر سے شروع ہوا۔ انھیں سنہ 1997 میں سندھ کا صدر بنایا گیا۔ سنہ 2001 میں وہ مرکزی نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔سنہ 2006 میں پارٹی کے جنرل سیکریٹری بنائے گئے اور سنہ 2013 تک اس عہدے پر رہے۔ یہی وہ دور ہے جب تحریک انصاف مینار پاکستان میں جلسہ عام کے بعد تبدیلی کا نعرہ لگا کر پورے ملک میں پھیل گئی۔
انھوں نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر پہلا الیکشن سنہ 1997 میں کراچی کی امیر آبادی کے علاقے ڈیفنس اور کلفٹن پر مشتمل صوبائی حلقے سے لڑا لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے امیدوار سلیم ضیا کے ساتھ تھا۔ ان انتخابات میں ان کا تیسرا نمبر آیا۔سنہ 2002 کے انتخابات میں انھوں نے پی ایس 90 سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر قسمت آزمائی کی لیکن انھیں شکست ہوئی، یہاں سے ایم ایم اے کے مولانا عمر صادق کامیاب ہوئے اور ڈاکٹر عارف علوی چھٹے نمبر پر آئے، اگلے یعنی 2008 کے انتخابات کا تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا تھا۔
ایم کیو ایم سے ٹکراؤ
سنہ 2013 کے عام انتخابات میں وہ ڈیفنس، کلفٹن اور صدر کے علاقے پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقے این اے 250 سے مقابلے میں آئے۔ابتدائی نتائج میں ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت کو کامیاب قرار دیا گیا تھا تاہم تحریک انصاف نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے اورعارف علوی نے حلقے کے لوگوں کو متحرک کیا اور ڈٹ گئے۔تین تلوار پر ایک ایسے ہی احتجاج کے دوران ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی متنازع تقریر سامنے آئی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر وہ کارکنوں کو حکم دیں تو وہ اس برگر کلاس کے تلواروں سے ٹکڑے کر دیں گے۔عارف علوی کا احتجاج رنگ لایا اور الیکشن کمیشن نے 45 پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ ووٹنگ کا حکم جاری کیا اور نتیجے میں عارف علوی مجموعی طور پر 76 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔اسی حلقے پر ایم کیو ایم کے ساتھ کشیدگی رہی اور تحریک انصاف نے لندن میں الطاف حسین کے خلاف اشتعال انگیزی کا مقدمہ درج کرایا جو بعد میں خارج کیا گیا، اس سے قبل ان کی انتخابی سیاست کی وجہ سے ان کے گھر پر ایک بار فائرنگ بھی کی گئی تھی۔
انھوں نے جماعت اسلامی کی تربیت اور طریقے اختیار کرتے ہوئے اپنے طور پر حلقے میں فلاح و بہبود شروع کر دی۔ وہ بارشوں کے دنوں میں غریب بستیوں میں لوگوں کی مدد کے لیے کشتی لے کر پہنچ جاتے۔ چند سال قبل ایک فٹ پانی میں ان کی کشتی کے ساتھ تصویر پر انھیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔عمران خان نے جب انتخابات نتائج کو مسترد کرکے سنہ 2014 میں اسلام آباد میں کنٹینر کے ساتھ دھرنا دیا تھا تو حکومت سے مذاکرات کی ٹیم میں عارف علوی بھی شامل تھے۔سنہ 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی جانب سے انھیں ایک بار پھر اسی نشست سے میدان میں اتارا گیا، جس پر نئی حلقہ بندیوں کے تحت این اے 247 بنی تھی جس پر انھوں نے ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کو شکست دیتے ہوئے کامیابی حاصل کی تھی۔
صدارت کا منصب اور آرڈیننس فیکٹری
تحریک انصاف جب سنہ 2018 کے انتخابات میں پارلیمنٹ میں اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی تو صدارت کا منصب عارف علوی کو دینے کا فیصلہ کیا گیا، ان سے قبل اس منصب پر کراچی ہی سے تعلق رکھنے والے ممنون حسین فائز تھے۔ان کا کردار اپنے قائد عمران خان کے چار سالہ دور میں محض علامتی تھا کیونکہ انھوں نے خود کو روایتی تقریبات کی صدارت کرنے اور پارلیمنٹ کی طرف سے بھیجے گئے بلوں پر دستخط کرنے تک محدود رکھا ہوا تھا۔اس کے علاوہ انھوں نے طالب علموں کے لیے نجی شعبے کے ساتھ مل کر آرٹیفیشل انٹلیجنس کی تربیت کا آغاز کیا تھا۔
تجزیہ نگار مظہر عباس کے مطابق پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں کو خطابات میں بھی انھوں نے حکومت کو کوئی تلقید یا تنقید نہیں کی۔عارف علوی بھی پاکستان کے ان صدور میں سے شامل تھے جنھوں نے اپنی مدت پوری کی، ان کی آئینی مدت تو ستمبر 2023 میں پوری ہوگئی تھی۔ تاہم صدارتی انتخابات تک اگلے چھ ماہ ان کے پاس یہ منصب رہا۔ناقدین عارف علوی پر آئین کی خلاف ورزی اور 77 آرڈیننس جاری کر کے ایوان صدر کو ’آرڈیننس فیکٹری‘ میں تبدیل کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار حامد میر کہتے ہیں کہ عارف علوی نے ایوان صدر کو آرڈیننس فیکٹری بنادیا تھا۔ انھوں نے پیکا آرڈیننس جاری کیا، جس پر بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کیا اور اس کو آئین سے متصادم قرار دیا۔حامد میر کہتے ہیں کہ وہ کتاب دوست صدر تھے۔ ان کے دور میں ایوان صدر میں پڑھے لکھے لوگوں، علما اور اہل فکر و دانش کی کافی آمدورفت رہی۔
متنازع کردار
صدر عارف علوی کو اپنے پانچ سالہ دور میں اپنے لیڈر عمران خان کو بدعنوانی کے مقدمے میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھنا پڑا، جو ان کی دہائیوں پر محیط سیاسی زندگی کا مشکل ترین لمحہ تھا۔اس سے قبل انھوں نے سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس دائر کیا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا، جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام پر تھیں۔ سپریم کورٹ نے بعد میں اس ریفرنس کو خارج کردیا تھا۔
سینیئر صحافی فاروق عادل کہتے ہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس میں عدالت کا جو فیصلہ آیا وہ یہ تھا کہ صدر مملکت نے اپنا دماغ استعمال نہیں کیا؟ان کے مطابق ’ریفرنس دائر کرنے کا ایک پورا آئینی طریقہ کار موجود ہے، ریاست پاکستان کے جتنے بھی محکمے اور وزارتیں ہیں ان کا ایک شعبہ ایوان صدر میں موجود ہے۔ اسی طرح وزارت قانون کا بھی ایک شعبہ وہاں موجود ہے، جہاں سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج یا وکیل ہوتے ہیں، جو اس طرح کے معاملات میں صدر کو آئینی مشورہ دیتے ہیں۔ان کے مطابق ’پتہ یہ چلا کہ پورا طریقہ کار ہوا تھا اس کے باوجود انھوں نے پارٹی وابستگی کو آئین اور قانون پر اولیت دی اور اپنے وزیر اعظم کی طرف سے بھیجا ہوا ریفرنس آگے بڑھا دیا۔ کوئی بھی صدر اپنی پارٹی سے کتنا بھی وفادار ہو اس سطح پر کوئی نہیں کرتا کہ آئین سے بالاتر ہو کر پارٹی سے وابستگی کو ترجیح دے۔‘
حامد میر کہتے ہیں کہ ’عارف علوی نے بغیر سوچے سمجھے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نااہلی کا ریفرنس بھجوایا اور بعد میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا‘۔حامد میر کہتے ہیں کہ ’وہ آئین سے زیادہ تحریک انصاف کے وفادار رہے اور ان کا دور تنازعات سے بھرپور تھا۔‘
عمران خان کو بچانے کی کوشش
جب پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اپریل 2022 کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش کی تو انھوں نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے مشورے پر قومی اسمبلی تحلیل کردی تاکہ اس تحریک سے بچا جاسکے بعد میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ طور پر اس فیصلے کو آئین اور قانون کے خلاف قرار دیا۔
صحافی فاروق عادل کہتے ہیں کہ جب تحریک عدم اعتماد کا مرحلہ آیا تو صدر نے اپنا دماغ استعمال کیے بغیر اسمبلی تحلیل کردی جس سے ایک خلا پیدا ہوگیا یعنی اسمبلی تحلیل ہوئی تو مطلب کہ حکومت بھی گئی اگر حکومت گئی تو پھر سوال یہ آتا ہے کہ اس کی جانشین حکومت کہاں ہے؟ان کے مطابق آئین پاکستان کے مطابق ایک عبوری حکومت بنتی ہے وہ نگران کہاں تھی۔ اس صورتحال کے ذمہ دار عارف علوی تھے۔
سینئر صحافی حامد میر کہتے ہیں کہ وہ مشکل وقت میں تحریک انصاف کو ریلیف نہیں دلا سکے کیونکہ ان کے پاس کوئی آئینی اختیار نہیں تھا۔ ’تاہم انھوں نے تحریک انصاف کے دور حکومت میں کچھ سزا یافتہ دہشت گردوں کی سزائیں معاف کیں جو ناقابل معافی تھے۔ وہ آخر تک عمران خان کے ساتھ وفادار رہے مگر حد سے آگے نہیں گئے، جس کے باعث خان صاحب ان سے ناراض رہے۔‘
سینیئر تجزیہ نگار مظہر عباس کی رائے میں عارف علوی نے اپنے قائد عمران کو بچانے کی کوشش کی بلکہ اپنی آئینی حدود سے زیادہ کوشش کی، وہ ان سے زیادہ توقع کر رہے تھے انھوں نے دو کشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش کی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتہ کرانے کی بھی کوشش کی۔
نینشل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) میں بین الاقوامی تعلقات کے استاد طاہر نعیم ملک کہتے ہیں صدر علوی نے جنرل باجودہ اور عمران خان کو ایک میز پر بٹھایا لیکن وہ اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے۔ان کے مطابق اس سے ہٹ کر وہ عمران خان کو قائل نہ کر سکے کہ پارلیمانی سیاست میں رہ کر وہ اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اس کی شاید وجہ یہ تھی کہ وہ صدر تو تھے لیکن پارٹی میں ان کی پوزیشن عمران خان کے مقابلے میں کمزور ہے۔
حلف لینے سے انکار اور آرمی ایکٹ
صدر عارف علوی نے حالیہ انتخابات میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ ن کے امیدوار شہباز شریف سے بطور وزیر اعظم حلف لیا۔ تاہم اس سے قبل جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف قومی اسمبلی سے قائد ایوان منتخب ہوئے تھے تو صدر عارف علوی نے حلف لینے سے انکار کردیا تھا اور اس کی وجہ سے صحت کی خرابی بتایا گیا ہے۔فاروق عادل جو ایوان صدر میں ڈائریکٹر میڈیا بھی رہے ہیں بتاتے ہیں کہ صدر مملکت کبھی بھی حلف لینے سے گریز نہیں کرتا، صدر ممنون حسین حلف لینے کے حق میں تھے ان کاموقف تھا کہ ہم نے کوئی آئینی بحران پیدا نہیں کرنا ہے۔ان کےمطابق ’جب پریشر بہت تھا تو میں ممنون حسین کا پیغام لے کر مشاہداللہ خان کے پاس گیا۔ مشاہد االلہ اڈیالہ جیل گئے اور نواز شریف کو بتایا کہ اس طرح کی صورتحال ہے آپ کی کیا خواہش ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ ممنون حسین کو کہیں کے میری ایسی کوئی خواہش نہیں ہے کہ آپ حلف نہ لیں لہٰذا آئین اور قانون کی پیروی کریں۔
پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران صدر عارف علوی کا ایک اور تنازع اس وقت سامنے آیا جب انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کو مزید اختیارات دینے والے دو اہم بلوں پر دستخط نہیں کیے ہیںآفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 حکام کو ریاست اور فوج کے خلاف اقدامات یا اظہار کی صورت میں لوگوں کے خلاف مقدمہ چلانے کا زیادہ اختیار دیتے ہیں۔
پاکستان میں بیشتر افراد کا ماننا ہے کہ صدر عارف علوی نے آرمی ایکٹ میں تبدیلی میں رکاوٹ بن کر تحریک انصاف کو ریلیف دینے کی کوشش کی کیونکہ 9 اپریل 2022 میں فوجی تنصیبات پر حملوں کے الزام میں تحریک انصاف کے متعدد رہنما اور کارکن گرفتار ہیں۔حامد میرے کہتے ہیں کہ عارف علوی نے آرمی ایکٹ سمیت کئی دیگر قوانین کو روکنے کی بھی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔طاہر نعیم ملک کہتے ہیں اس عمل میں صدر کی جانب سے مزاحمت بھی دکھائی دیتی ہے، جو صدر کے منصب کے لیے ایک بڑی غیر معمولی چیز ہے لیکن جس طرح انھوں نے سٹینڈ لینا چاہیے تھا وہ نہیں لے سکے۔
ان کے مطابق ’صدر جیسے عہدے پر بیٹھا شخص یہ کہے کہ مجھے علم نہیں تھا عملے نے ایسا کیا ہو گا یہ بھی ایک کمزور پہلو ہے۔‘مظہر عباس کہتے ہیں کہ اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو انھوں نے بعض اوقات جمہوری کردار ادا کرنے کی کوشش کی حالانکہ صدر کے اختیارات 18ویں ترمیم کے بعد بلکل ختم ہو چکے ہیں لیکن جو بھی ایشو آتا تھا وہ اس میں پوزیشن لیتے نظر آتے تھے۔
سیاست میں واپسی
تحریک انصاف کی قیادت عمران خان اور شاہ محمود قریشی سمیت جیل میں ہے۔ان کے کچھ دوست اور ساتھی جن میں عمران اسماعیل اور علی زیدی شامل ہیں نے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے جبکہ بعض دیگر پاکستان استحکام پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عارف علوی ریٹائرمنٹ کے بعد اس خلا کو پُر کرنے کے لیے کوئی کردار ادا کر سکیں گے؟
مظہر عباس کہتے ہیں کہ یقیناً وہ پارٹی میں فعال کردار اد کریں گے، فی الحال تو ان پر دو سال کی آئینی پابندی ہو گی لیکن پسِ منظر میں رہ کر وہ اپنا سیاسی کردار ادا کرتے رہیں گے۔ان کے مطابق ’آخری وقت میں جو چیزیں انھوں نے کیں شاید اس کو نظر انداز کرتے تو ایک اچھے نوٹ پر ان کا دور صدارت ختم ہوتا لیکن اب لگتا یہی ہے کہ انھیں متنازع صدر کے طور پر جانا جائے گا، ظاہر ہے پارٹی کے لوگ تو ان کی تعریف کریں گے لیکن ان کا کردار ایک متنازع رہا ہے۔‘