حکومت اور اسٹیبلشمنٹ گوادر کے عوام کو کیسے اپنے خلوص کا قائل کرسکتے ہیں؟
موسم کی صورتحال بتانے والے ماہرین نے پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ آئندہ چند دنوں میں شدید بارشیں برسانے والا نیا سسٹم بلوچستان میں داخل ہونے والا ہے۔ نئے سسٹم سے حالیہ طوفانی بارشوں سے ہونے والی تباہی میں مزید اضافہ ہوگا۔غیر معمولی بارشوں نے گوادر اور اس کے ملحقہ علاقوں میں لوگوں کے کچے مکانات کو تباہ کیا جس کے بعد رہائشیوں کی بڑی تعداد چھت سے محروم ہوگئی۔ گلیاں، سڑکیں اور بڑی شاہ راہیں زیرِ آب آگئیں۔ لوگوں کو اپنے مکانات اور دکانوں سے پانی نکالتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ کئی لوگوں کی عمر بھر کی کمائی طوفانی بارشوں کی نذر ہوگئی۔ گلی محلوں میں مایوسی ہر سو پھیل چکی ہے۔
اگرچہ بہت سے حکومتی ادارے متحرک ہوچکے ہیں لیکن نقصان کی بھرپائی اور بحالی کے کاموں میں کافی وقت اور محنت درکار ہے۔ اب یہ سوال بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ گوادر کو بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے بےمثال ترقیاتی راہداری کا قلب کہنے کا دعویٰ کس حد تک درست ہے۔ 3 لاکھ 50 ہزار سے کم آبادی پر مشتمل اس شہر میں یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ سی پیک پر انحصار کرکے قومی خوش حالی کے خوابوں کو حقیقت بنانے کے لیے کتنے بڑے پیمانے پر علاقائی ترقی ہوسکتی ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس خطے کو تواتر سے بارشوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن موجودہ طرزِ تعمیر موسلادھار بارشوں کے اثرات برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ زیادہ بارشیں مؤثر نکاسی آب کے نظام کا مطالبہ کرتی ہے تاکہ بارش کے پانی کی جلد از جلد نکاسی کو یقینی بنایا جاسکے۔ گوادر جو پینے کے پانی کی قلت کا شکار ہے، بدقسمتی سے یہاں طویل عرصے کے لیے بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں۔
متعلقہ حکام گوادر اسمارٹ سٹی پلان کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں جس کا مقصد ترقی کی سمت طے کرنا ہے۔ اس طرح کا منصوبہ لوگوں کو صرف اس صورت میں فائدہ دے گا جب یہ موجودہ آبادی کو محفوظ اور تحفظ فراہم کرے، معیار زندگی کو بڑھانے کے لیے اہم بنیادی ڈھانچے کو متعارف کروائے اور اعلیٰ معیار کا ذریعہ معاش فراہم کرے۔ ریئل اسٹیٹ کے لیے زمینوں کی نشاندہی کرنا اور پسندیدہ اسٹیک ہولڈرز میں زمین کی خفیہ تقسیم سے گوادر کے رہائشیوں کو ریلیف نہیں ملے گا۔اگر ان ترقیاتی کاموں سے عام لوگوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اور اس سے انہیں غربت سے نجات مل سکتی ہے تو اس طرح کی ترقی کسی حد تک اہم ثابت ہوسکتی ہے۔
گوادر کے عوام کو فیصلہ سازی میں حصہ نہ بنانے کی بھی شکایت ہے۔ چاہے وہ ترقیاتی کاموں کا انتخاب ہو یا معمول کے انتظامی معاملات، صوبائی حکومت، وفاقی ایجنسیز اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اس میں پوری طرح شامل ہوتی ہیں۔ ترقیاتی مقامات اور زمین کی تقسیم سے متعلقہ فیصلے اور کاروباری اداروں کے قیام یا روایتی کشتی سازی اور ماہی گیری کے درمیان انتخاب میں مقامی آبادی کے بزرگوں یا نمائندوں کو مشاورتی عمل میں شامل نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے احتجاج اور تحریک کا آغاز ہوتا ہے۔
اب جب مرکز اور بلوچستان میں نئی حکومتیں بننے جارہی ہیں تو شاید گوادر اور اس سے ملحقہ علاقوں کے عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے مختلف حکمت عملی پر غور کرنے کا موقع ملے۔ ایک وسیع البنیاد اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی جائے جو علاقے سے منتخب اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی، کمیونٹی کے عمائدین اور انتظامیہ کے عملے پر مشتمل ہو تاکہ ریلیف، بحالی اور تعمیرِنو کی حکمت عملی تیار کی جاسکے۔ آفات سے موافقت کے لیے موجودہ منصوبوں اور پروجیکٹس پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے۔ مقامی امور میں مقامی افراد کی شمولیت کے احساس کو بحال کرنے کے لیے کمیونٹی کے بزرگوں کے ساتھ مل کر منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جانا چاہیے۔
پُرامن حالات کی شرط پر ساحلی علاقوں میں ریلیف اور بحالی کے کام بہترین طریقے سے ہوسکتے ہیں۔ اس کے لیے مختلف اسٹیک ہولڈرز اکٹھے ہوکر عوام کا اعتماد بحال کرسکتے ہیں۔ البتہ چند سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ آنے والی حکومت کو ان لوگوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرنا چاہیے جو ان کے نزدیک مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ صوبائی حکومت کی جانب سے اسمبلیوں کے اندر اور باہر موجود تمام سیاسی قوتوں کے سرکردہ رہنماؤں کو مذاکراتی اجلاسوں میں مدعو کیا جا سکتا ہے۔
بات چیت کا بنیادی مقصد حکومت، سیاسی جماعتوں اور قبائلی عمائدین کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کو مضبوط بنانا ہے۔ اعتماد سازی کے اقدامات کے ذریعے تشدد کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے ایک روڈ میپ تیار کرنا اور مرکز کے ساتھ مذاکرات کے ایجنڈے کی تیاری کرنا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ بہت سے ایسے معاملات ہیں جن پر کسی بھی صوبائی حکومت کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ نے آگے قدم نہیں بڑھایا تو یہ کوشش بے سود ثابت ہوسکتی ہے۔
سیاسی قیدیوں کی رہائی اور لاپتا افراد کی بازیابی سے اسٹیبلشمنٹ بلوچستان کے رہائشیوں کو اپنے خلوص کا قائل کرنے کی کوششوں کا آغاز کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ گوادر اور دیگر ساحلی علاقوں سے اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو دبانا نہیں چاہیے۔ آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سیاسی موقع دیا جائے تاکہ ان لوگوں میں شرکت کا احساس پیدا ہو۔ اگر کسی گروہ کے خدشات کو عام سیاسی عمل میں حقیقی طور پر موقع دیا جائے تو کوئی بھی سیاسی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں ہوسکتا۔ خوف اور خطرات صرف اس وقت سر اٹھاتے ہیں جب ایسے گروہوں کو وہاں اہمیت نہ دی جائے جہاں وہ اپنی سیاسی اہمیت ثابت کرسکتے ہوں۔
کالم نگار :- ڈاکٹر نعمان احمد