قومی اسمبلی میں کم نشستیں یا تنظیم سازی کا فقدان۔۔۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں اب تک بلوچستان میں جگہ کیوں نہیں بنا سکیں؟

29.jpg

سنہ 2018 کےعام انتخابات میں بلوچستان کے سیاسی منظرنامے پرجو دلچسپ تبدیلیاں رونما ہوئیں ان میں سے ایک ان انتخابات سے چند ماہ قبل وجود میں آنے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کا انتخابات میں اکثریت حاصل کرنا اور اس کی قیادت میں صوبے میں مخلوط حکومت بننا تھی۔
بلوچستان میں ایک دوسری تبدیلی یہ آئی تھی کہ پہلی مرتبہ پاکستان تحریک انصاف اس صوبے سے قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی سات نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی۔
ان دو جماعتوں کی کامیابیوں کے برعکس پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک پاکستان پیپلز پارٹی 2018 کے انتخابات میں بلوچستان میں ایک بھی نشست جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی جبکہ 2013 کے عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کو اس صوبے میں صرف ایک سیٹ ملی تھی۔
لیکن اب 2024 میں ہونے والے انتخابات سے پہلے بلوچستان کی صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی ہے کیونکہ الیکٹیبلز کی اکثریت اب بلوچستان عوامی پارٹی کو خیرباد کہہ چکی ہے جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جو لوگ کامیاب ہوئے تھے ان کی اکثریت بھی اب سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت کو چھوڑ چکی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق الیکٹیبلز کے جانے سے 2018 کے مقابلے میں اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی کی پوزیشن کمزور نظر آ رہی ہے اور ان ہی میں سے کچھ شخصیات کی ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد دوںوں بڑی جماعتوں کی پوزیشن صوبے میں مستحکم ہوئی ہے۔
موجودہ صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بلوچستان میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا انحصار الیکٹیبلز پر ہی ہوتا ہے۔
الیکٹیبلز بلوچستان عوامی پارٹی کیوں چھوڑ کر چلے گئے اور ان الیکٹیبلز کی بڑی جماعتوں میں شمولیت کے بعد صوبے میں آئندہ کا سیاسی منظرنامہ کیسا ہو گا؟
اس بارے میں تجزیہ کاروں کی رائے کیا ہے اس کا تذکرہ بعد میں کریں گے کیونکہ پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بلوچستان میں مستحکم ووٹ بینک کن جماعتوں یا شخصیات کا ہے اور بڑی سیاسی جماعتوں کا اس صوبے میں اپنا مستحکم ووٹ بینک کیوں نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے