غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی حمایت کرنے پر امریکہ کو سفارتی تنہائی کا سامنا
’امریکہ واپس آ گیا‘ یہ کہہ کر عہدہ سنبھالنے والے صدر جو بائیڈن کی حکومت کے تین سال بعد غزہ کے خلاف جارحیت میں اسرائیل کی حمایت کرنے کے باعث امریکہ کے بین الاقوامی تشخص کو دھچکا لگا ہے۔
خبررساں ایجنسی کے مطابق امریکہ نے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے سخت مذاکرات کے بعد جمعے کو غزہ کے لیے انسانی امداد سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد منظور ہونے دی ہے۔
لیکن امریکہ اب بھی اپنے کچھ قریبی اتحادیوں برطانیہ، فرانس اور جاپان سے الگ رہا جنہوں نے اس قرارداد کی حمایت کی تھی۔
امریکہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، جس میں صرف روس شامل تھا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک ہفتہ قبل امریکہ کے ساتھ صرف دو یورپی شراکت دار آسٹریا اور جمہوریہ چیک شامل تھے اور اس کے کسی بھی ایشیائی اتحادی نے سیزفائر کے مطالبے کے خلاف ووٹ نہیں دیا تھا۔
چیتھم ہاؤس لندن میں امریکہ اور امریکن پروگرام کی ڈائریکٹر لیزلی ونجاموری نے کہا کہ ’جب امریکہ کی بات آتی ہے تو زیادہ تر یورپی پالیسی ساز اب بھی روس کے حملے کے خلاف یوکرین کے لیے بائیڈن کی مضبوط حمایت کے بارے میں سوچتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت باقی دنیا میں یہ چل رہا ہے کہ امریکہ اسرائیلیوں کی پرواہ کرتا ہے، یوکرینیوں کی پرواہ کرتا ہے اور غیر سفید لوگوں کی پرواہ نہیں کرتا۔‘
اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس، جنہوں نے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کی تھی جو بائیڈن نے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو سے غزہ کے شہریوں کے تحفظ میں اسرائیل کی ناکامی پر کھل کر مایوسی کا اظہار کیا ہے حالانکہ امریکہ اسرائیل کے سفارتی تحفظ کو یقینی بنا رہا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ پس پردہ ان کے دباؤ کے نتائج سامنے آئے ہیں اور اسرائیل غزہ میں ایندھن کی فراہمی اور انٹرنیٹ بحال کرنے جا رہا ہے جبکہ غزہ میں داخل ہونے کے راستے کھلے ہیں۔
ونجاموری نے کہا کہ ’غزہ کے مصائب کی تصاویر سامنے آنے کے بعد یہ کہانی کہ بائیڈن نیتن یاہو کے قریب ہیں اور پھر خاموشی سے ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں تقریباً ایک ہفتے تک کام کرتی رہی۔‘
گیلپ انٹرنیشنل کے مشرق وسطیٰ کے ڈائریکٹر منقت داغر نے کہا کہ ’گذشتہ ماہ چھ ممالک کے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ صرف سات فیصد کا خیال ہے کہ جنگ میں امریکہ نے مثبت کردار ادا کیا۔‘
عراق میں المستقلہ ریسرچ گروپ کے بانی داغر نے کہا کہ ’دو دہائی قبل عراق پر حملے کے بعد سے عرب دنیا میں واشنگٹن کی ساکھ بری طرح خراب ہوئی ہے، لیکن حال ہی میں 15 سے 30 فیصد اب بھی امریکہ کو مثبت انداز میں دیکھتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’امریکی ٹریڈ مارک بہت سی اچھی چیزوں کا بانی ہے، خاص طور پر دانشوروں اور متوسط طبقے کے لیے، جیسا کہ جمہوریت، انسانی حقوق اظہار رائے کی آزادی، لیکن غزہ کے لیے یہ زندگی اور موت کا سوال ثابت ہوا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سوشل میڈیا نے غزہ سے عرب عوام تک غیر فلٹر شدہ مناظر پیش کیے ہیں، جو واشنگٹن کا ’اسرائیلیوں کی مکمل حمایت اور فلسطینیوں کے انسانی حقوق سے انکار‘ دکھاتے ہیں۔
ان کے مطابق: ‘رائے شماری سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرب رائے عامہ میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں میں چین، روس اور
سب سے زیادہ حیران کن طور پر ایران شامل ہیں، جس کا عرب دنیا کے ساتھ تاریخی تناؤ ہے لیکن علاقائی حکومتوں میں وہ حماس کی حمایت کرتا ہے۔‘
امریکی وزیر خارجہ انٹینی بلنکن نے دنیا پر زور دیا ہے کہ وہ حماس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرے جس کے جنگجوؤں نے سات اکتوبر کو اسرائیل میں گھس کر 1140 افراد کو مارا اور 250 کے قریب کو قیدی بنا لیا تھا۔
حماس حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے فضائی اور زمینی کارروائیوں سے 20 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو قتل کر دیا ہے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔