غزہ کے بچے جن کے خواب ادھورے رہ گئے
جنگ سے پہلے غزہ کی گلیاں بچوں سے بھری رہتی تھیں۔ بحیرہ روم کے کنارے واقع اس تنگ پٹی کو گھر کہنے والے 20 لاکھ افراد میں سے تقریباً نصف کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔
اختتام ہفتہ اور سکولوں سے چھٹی کے وقت یہاں کے ساحل، پارکس اور کھیل کے میدانوں میں بچوں کے ہنسنے اور کھیلنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔
لیکن غزہ کے بچوں کو اپنی مختصر زندگی میں بہت کچھ سہنا پڑا ہے۔ ایک 15 سالہ بچے نے اپنی زندگی میں حالیہ تنازع سمیت پانچ جنگوں کی ہولناکیوں کا مشاہدہ کیا ہو گا۔ بہت سے لوگ متعدد بار بے گھر ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے گھر بمباری سے تباہ ہو گئے تھے۔
اس سب کے باوجود انہوں نے اس طرح کی تباہی کا مشاہدہ پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔
غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے آغاز سے اب تک فضائی حملوں، توپ خانے اور مارٹر حملوں میں سات ہزار سے زیادہ بچے مارے جا چکے ہیں۔
یہ تعداد صرف ان لوگوں کی ہے جن کی شناخت ہو چکی ہے اور بہت سے اب بھی ممکنہ طور پر ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
دیگر ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ غزہ کو ’ہزاروں بچوں کا قبرستان‘ اور ’بچوں کے لیے دنیا کی سب سے خطرناک جگہ‘ قرار دے چکا ہے۔
ان ناقابل یقین اعداد و شمار میں ان بچوں کے چہرے، نام، زندگی اور خوشی کے لمحات گم ہو گئے ہیں۔ ایسے ہی کچھ بچوں کی کہانیاں یہاں بیان کی جا رہی ہیں۔
13 سالہ پراعتماد ایتھلیٹ سوار المدہون
سوار اپنی عمر کے لحاظ سے دراز قد بچی تھی اور انہوں نے اس خوبی کو اچھے طریقے سے استعمال کیا۔ انہیں باسکٹ بال کا جنون تھا۔ انہیں جب موقع ملتا وہ یہ کھیل کھیلتی، سکول میں، اپنے ذاتی وقت میں اور گرمیوں میں بھی۔ انہوں نے کئی ٹرافیاں جیتیں۔
ان کی ایک ویڈیو سامنے آئی جو ایک باسکٹ بال ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد لی گئی تھی جس میں انہیں ایک بڑے سٹیج پر ایک ہجوم کے سامنے رقص کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جب کہ ان کے گرد کنفیٹی سپرے ہو رہی ہے اور میوزک بج رہا ہے۔
پوری ٹیم اپنے تمغوں کے ساتھ جمپ کرتی ہے۔ وہ ہر وقت فلوریڈا کے ایک ہائی سکول کی باسکٹ بال کی پرانی جرسی پہنتی تھیں کیونکہ اس کے سامنے ایک باسکٹ بال ہوپ اور ایک بال ہوتی تھی۔ انہیں والی بال بھی بہت پسند تھی، ایک اور کھیل جہاں ان کے دراز قد نے انہیں فائدہ پہنچایا۔
ان کے چچا ہانی المدہون کہتے ہیں کہ ’سوار اپنی عمر کی زیادہ تر لڑکیوں سے زیادہ آزاد تھی۔ انہیں پرواہ نہیں تھی۔ وہ باہر جاتی اور خود ہی اپنے کام کرتی، ساحل پر جا کر تیراکی کرتی۔ وہ ہمیشہ کام کرتی رہتی تھی اور بالکل بھی نہیں شرماتی تھی۔‘
وہ اپنے تمام بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ پراعماد تھی۔ صرف 13 سال کی عمر کے باوجود وہ انتہائی پر اعتماد تھی۔ ہانی کو یاد ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے والدین کی مدد کرنا چاہتی تھی۔
سوار کو پکنک کا شوق تھا۔ اگر ان کے ہاتھ میں پیسے ہوتے تو وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ قریبی ریسٹورنٹ جاتی جہاں وہ ہر بار ایک ہی کھانے کا آرڈر دیتی یعنی شوارما سینڈوچ، اچار، کارن سیلڈ اور فرائز۔ یہ ایک کلیم شیل کنٹینر میں ملتا تھا۔
سوار منجھلی بیٹی تھی اور وہ اپنے چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کی حفاظت کرتی تھی۔ وہ اپنے چھوٹے کزنز کی دیکھ بھال کرنا بھی پسند کرتی تھی جب وہ انہیں ملنے آتے تھے۔ ان کے چچا ہانی کی اپنی بیٹیاں بھی جب امریکہ سے غزہ جاتی تھیں تو اپنا سارا وقت ان کے ساتھ گزارتی تھیں۔
ہانی کے بقول: ’میری بیٹیاں جہاں بھی جاتیں وہ ان کے ساتھ جاتی تھی۔ وہ ان کے ساتھ سائے کی طرح چپکی رہتی۔ وہ سب کی پسندیدہ تھی اور ہر کوئی ان کا دوست تھا۔‘
سات سالہ شرارتی علی المدہون
علی خاندان کے لیے ایک شرارتی بچہ تھا۔ وہ چھوٹا تھا لیکن اس کا جسم پھرتیلا تھا اور وہ ہمیشہ لڑتا رہتا تھا۔ اس کے والد مذاق میں کہتے تھے کہ علی کی نئی لڑائیوں کا جواب دینے کے لیے پڑوسیوں کے گھر جانا معمول بن گیا تھا۔ ان کے چچا ہانی کا کہنا ہے کہ والد بھی اپنے بچپن میں بالکل ایسے ہی تھے۔
کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ ان میں اتنی توانائی کہاں سے آتی ہے۔ جب گھر والے ساحل سمندر پر جاتے تو وہ ہمیشہ نظروں سے غائب ہو جاتا تھا۔
ان کے چچا کے مطابق: ’اس کو ہدایات دینا سب سے مشکل کام تھا۔ وہ قابو سے باہر ہو جائے گا اور خطرے میں کود پڑے گا اور وہ نہیں مانے گا۔ وہ بہت ضدی تھا۔‘
لیکن وہ خاندان میں سب سے چھوٹا بچہ تھا، اس لیے وہ سب کا لاڈلہ بھی تھا یعنی کزنز، دادا دادی، والدین، بڑے بہن بھائی سب کا۔ علی اپنی مسکراہٹ دکھا کر بہت کچھ کر جاتا تھا۔
وہ اپنے والد سے ہمیشہ چپکا رہتا۔ وہ ہر جگہ اس کا پیچھا کرتا۔
علی، عمر اور سوار 24 نومبر کو ایک اسرائیلی فضائی حملے میں اپنی بڑی بہن ریمان اور اپنے والدین ماجد اور صفا کے ساتھ مارے گئے تھے۔
وہ حالیہ تنازع میں عارضی فائر بندی شروع ہونے سے صرف ایک گھنٹہ پہلے اپنے آبائی گھر میں مارے گئے جہاں وہ 40 دنوں سے پناہ لیے ہوئے تھے۔
اس اسرائیلی حملے میں مزید لوگ بھی مارے جاتے لیکن خاندان کے آدھے لوگ ماجد اور ہانی کی بہن کو ہسپتال میں ملنے کے لیے جا چکے تھے۔
وہ ایک الگ فضائی حملے میں زخمی ہو گئی تھیں جن کا علاج جاری تھا۔ گھر والے رات بھر وہیں رہے کیونکہ وہ گھر جاتے ہوئے اسرائیلی سنائپرز سے ڈرے ہوئے تھے۔
خاندان کو ان سب کی لاشیں نکالنے میں کئی دن لگ گئے۔ عمر کی لاش سب سے پہلے ملی۔ وہ دھماکے سے اپنے گھر سے اتنی دور جا گرا کہ اسے ایک اجنبی شخص نے تلاش کے علاقے سے تقریباً 20 میٹر دور پایا۔
ایک دن بعد انہوں نے اس کے والد یعنی ماجد کی لاش کو ملبے سے نکالا۔ تین دن بعد انہیں علی، ان کی ماں صفا اور بہن ریمان کی لاشیں ملیں۔
ننھی یوٹیوبر غنہ الکرنز
غنہ بے تابی سے ایک یوٹیوب سٹار بننا چاہتی تھی۔ صرف آٹھ سال کی عمر میں وہ پہلے ہی ایسی ویڈیوز بنا رہی تھی جس سے ان کا مزاح، لطافت اور اعتماد کا اظہار ہوتا تھا۔
ایک ایسی ہی ویڈیو میں، جسے انہوں نے کبھی پوسٹ نہیں کرنا پڑا، وہ ایک تجربہ کار ٹی وی میزبان کی طرح اشارے کرتے ہوئے ناظرین کو اپنے گھر کے آس پاس کے حالات دکھاتی ہے۔ وہ ہمیں کچن میں لے جاتی ہے اور ہمیں اپنے پسندیدہ چاکلیٹ ڈونٹس دکھاتی ہے جو ان کی والدہ نے ان کے لیے بنائے تھے۔
اس کے چچا محمود الکرنز کہتے ہیں کہ غنہ ہمیشہ اس طرح کی ویڈیوز بناتی تھی۔ وہ جب بھی مائیکروفون دیکھتی اسے پکڑ لیتی اور آپ کو کوئی گانا یا تقریر سننے کو ملتی۔
محمود کے مطابق: ’وہ اپنی روزمرہ کی زندگی کو ڈاکومینٹری بنانا چاہتی تھی اور لوگوں کو اپنی بہن اور بھائی اور اپنے کھلونے دکھانا چاہتی تھی۔ ان کے بہت سے خواب تھے لیکن سب سے زیادہ وہ ایک مشہور یوٹیوبر یا شاید ایک صحافی بننا چاہتی تھی۔‘
غنہ ناقابل یقین حد تک ذہین تھی۔ اس نے ہمیشہ سکول میں اچھے نمبر حاصل کیے۔ خاندان میں سب سے چھوٹی ہونے کا مطلب یہ تھا کہ ہر کوئی ان کے لاڈ اٹھاتا اور ان کی پرکشش شخصیت کے باعث ان کے بہت سے دوست تھے۔
غنہ اپنی چچی اور چچا کے قریب تھی اس لیے محمود کو ان کے ساتھ کافی وقت گزارنا پڑتا تھا۔ وہ انہیں مقامی تالاب میں لے جاتا تھا اور انہیں تیرنا سکھاتا تھا۔ ان کا ایک ساتھ اچھا وقت گزرتا تھا۔
ان کے بقول: ’وہ مجھ سے بہت قریب تھی، وہ مجھے ’محمود پول‘ کہتی تھی کیونکہ ہم ہمیشہ ساتھ تیراکی کرتے تھے۔‘
مارٹرز آف غزہ کی رپورٹ کے مطابق غنہ 23 اکتوبر کو جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں اس عمارت پر اسرائیلی فضائی حملے میں ماری گئی جہاں انہوں نے اپنے خاندان کے ساتھ پناہ لے رکھی تھی۔
ان کا خاندان تحفظ کی تلاش میں شمال میں ہونے والی بمباری سے بھاگ رہا تھا۔ غنہ کی موت کے بعد ان کی والدہ نے محمود کو اس دن کے بارے میں بتایا جس دن ان کی موت ہوئی تھی۔
وہ کہتے ہیں: ’انہوں نے ہمیں بتایا کہ غنہ اپنی ماں سے پوچھ رہی تھی کہ وہ دوپہر کے کھانے میں کیا بنا رہی ہیں۔ انہیں ہر روز کھانا میسر نہیں تھا کیونکہ غزہ میں خوراک کی قلت تھی اس لیے کبھی کبھار انہیں صرف چائے اور بسکٹ پر گزارا کرنا پڑتا تھا۔ انہوں نے کھانا نہیں کھایا ہوا تھا۔‘
گرچہ اس دن غنہ کی والدہ اس کا پسندیدہ پکوان پکا رہی تھی یعنی ٹماٹر کے سوپ کے ساتھ پھلیاں۔ غنہ گہرے لال رنگ کی وجہ سے اسے ’سرخ کھانا‘ کہتی تھی۔
کھانا ملنے کے امکان پر وہ بے حد خوش تھی۔ جب ان کی والدہ نے چولہے پر برتن چڑھایا تو وہ چیختے ہوئے ادھر ادھر اچھلتے ہوئے ’سرخ کھانا! سرخ کھانا! سرخ کھانا!‘ کی آوازیں لگا رہی تھی۔
اس کے صرف چند منٹ بعد ہی وہ ایک فضائی حملے میں ماری گئی۔ اس کی لاش 24 گھنٹے بعد گرنے والی عمارت کے ملبے کے نیچے سے ملی۔
ان کی ماں خوش قسمت تھی کہ زندہ بچ گئی لیکن غنہ کھانا کھائے بغیر ہی جان سے چلی گئی۔‘
مستقبل کے سکالر 14 سالہ محمود عثمان
عمر اور غنہ کے چچا زاد بھائی محمود عثمان کسی انجینئر کا ذہن رکھتے تھے۔ وہ اپنے کھلونوں اور دوسری گھر کی دوسری چیزوں کو کھول کر جوڑا کرتے۔ انہیں الیکٹرانک آلات پسند تھے۔
محمود اپنی آئندہ زندگی میں سفر کرنا چاہتا تھے لیکن ایک خاص مقصد کے ساتھ۔ وہ بہترین تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔
اسی لیے وہ اپنے چچا، جن کا نام بھی محمود ہے اور وہ ترکی میں رہتے ہیں، سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہاں جانے کے بارے میں بات کر رہے تھے۔
محمود کا کہنا ہے کہ ’وہ مجھ سے اچھی یونیورسٹی تلاش کرنے میں مدد مانگ رہے تھے۔‘
جب اسرائیلی جارحیت کا آغاز ہوا تو محمود نے باقی سب لوگوں کی خاطر وہاں موجود رہنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ اپنے خاندان میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے انہوں نے بھرپور طریقے سے ذمہ داری پوری کی۔ وہ
اپنے چچا محمود کو فون کرتے اور انہیں یقین دلاتے کہ وہ اپنے والدین کی دیکھ بھال کریں گے۔
محمود کے بقول: ’وہ مجھ سے کہتے تھے کہ ان لوگوں کی فکر نہ کروں۔ وہ محفوظ ہیں اور میں ان کی ہر ضرورت میں مدد کر سکتا ہوں۔ وہ مجھے بتانا چاہتا تھے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔‘
محمود اپنی والدہ، چچا اور دادا دادی کے ساتھ مارے گئے۔
14 سالہ جود عبدالعزیز ابوشعبان
جود ابوالعزیز ابوشعبان سفر کرنا چاہتی تھیں بالکل اسی طرح جیسے ان کے والد نے امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیا۔
وہ اپنی ذات اور انداز کا احساس دلاتی تھیں اور انہوں نے سات اکتوبر کو حملے سے کچھ دیر پہلے اپنے والد سے بالیوں کی فرمائش کی۔
جود کے چچا عادل ابوشعبان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’ان کے والد نے ان کے لیے بالیاں خریدیں جنہیں انہوں نے چند ہفتے پہنا۔‘
2009 میں حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک اور لڑائی کے دوران پیدا ہونے والی جود کی پرورش جنگ کے ماحول میں ہوئی۔
اس کے باوجود ان میں سے کسی نے بھی انہیں ’روائتی بچہ‘ بننے میں رکاوٹ نہیں ڈالی یعنی سکول جانا اور اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنا۔ خاص طور پر اپنے بڑے بھائی یوسف کے ساتھ۔
ابوشعبان کے بقول: ’وہ زندگی سے بھرپور تھیں اور زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھیں۔‘
لیکن 18 اکتوبر کو ابوشعبان کے گھر پر میزائل حملے کے نتیجے میں جود کی زندگی ختم ہو گئی۔
اسرائیلی بم حملوں کی آواز سن کر جود، ان کے بھائی، چھوٹی بہن اور والدین اپنے گھر کے تہہ خانے میں چھپ گئے۔ لیکن جب سیڑھیوں کے اوپری حصے میں دھاتی دروازے پر دھماکہ ہوا تو ٹکڑے اڑ کر جود سمیت خاندان کے کئی افراد کو لگے۔
خوش وخرم ننجا، 12 سالہ فرید سلوط
فرید سلوط کو اپنی پوری لیکن مختصر زندگی بہادری کا مظاہرہ کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنی پیدائش کے پہلے ہی دن سے لڑائی دیکھی۔
جب وہ اپنی والدہ کے شکم میں تھے تو اسرائیلی طیارے 2012 کے آپریشن پلر آف ڈیفنس کے دوران غزہ پر حملہ کر رہے تھے۔ بموں کی آواز ان پہلی آوازوں میں سے ایک تھی جو انہوں نے کبھی سنی۔
فرید چہرے کے نقص کے ساتھ پیدا ہوئے جس کا غزہ میں علاج ممکن نہیں تھا لیکن اس نقص نے انہیں تفریح پسند بچہ بننے سے نہیں روکا۔
فرید اپنا زیادہ تر فارغ وقت اپنے والد کی حجام کی دکان میں گھومتے پھرتے اور گاہکوں سے گپ شپ اور شرارت کرتے ہوئے گزارتے تھے۔
ان کے والد کو امید تھی کہ وہ ایک دن اپنے دو بھائیوں کے ساتھ مل کر کاروبار سنبھالیں گے۔